ُس و قت (١٨٥٦ئ) تو صلح نامہ ہو گیاتھامگر بعد میں رُوس نے سمجھاکہ یہ صلح نامہ اُس کے اِرادوں کے راستہ میں ایک بڑی رُکاوٹ ہے اِس لیے اُس نے بغیر کسی معقول وجہ کے عثمانی (ترکی) حکومت کی فوج پر١٨٧٤ء /١٢٩٤ھ میں ایک اور بڑا حملہ کر دیا، ١٨٥٦ء کے معاہدہ کی وجہ سے اِس طرح کے کسی حملہ کی اُمیدنہیں تھی اور یہ حملہ اَچانک ہوا جس کی وجہ سے ترکی فوج اور مقامی ریا ستوں کے ذمہ داروں اور فوجی اَفسروں کو مقابلہ میں سخت پر یشانی کا سامنا ہوا، اِس پر یشانی کواُن ریا ستوں کے درمیان سخت اِختلافات اور باہمی پنجہ کشی نے بہت بڑھا دیا تھا جس کے نتیجہ میں ایک کے بعد ایک بلقان ریا ستوں کے علاقے ترکی حکومت کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے، یہی وہ موقع تھا جب ہندوستان کے علماء کے قائدین سر بکف میدان میں آئے اور مشرقی یورپ کے مسلمانوں کی حمایت لیے حجاز، وہاں سے ترکی حکومت کے زیر اِنتظام جنگ کے میدان میں جانے کا فیصلہ کیا۔ '' ١
حضرت نا نو توی رحمة اللہ علیہ جو دینی غیرت کے پتلے اور خود کو عالمی ملی کارواں کانا چیز خادم اور معمولی حصہ سمجھتے تھے، اِس حادثہ سے شاید سب سے زیادہ متاثر ہوئے چنانچہ حضرت ہی کی سر براہی اور سر پرستی میں یہ اہم اور تاریخی فیصلہ کیا گیا کہ ہم سب خلافتِ اِسلامیہ اور مشرقی یورپ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں اُس کے لیے بھر پور کوشش کریں گے اور اِس تعاون و کوشش کی دو صورتیں ہوسکتی تھیں۔
(١) مشرقی یورپ کے مسلمان مجاہدین اور ترکی فوج کے جوانوں اور جنگ کے شہداء کے یتیموں اور بیواؤں کی مالی اِمداد جس سے اُن کے حو صلوں میں توانائی آئے اور وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں
١ قاسم العلوم حضرت مولانا محمدقا سم نانو توی اَحوال و آثار و باقیات، حضرت مولانا نورالحسن راشدصاحب کا ند ھلوی، طبع اَوّل ٢٠٠٠ء مکتبہ نور کاندھلہ، مظفر نگر یوپی، ص ٩٥، ٩٦۔