پھر چند صفحات کے بعد اِس سلسلے میں حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حضرت شیخ الہند نے فرمایا :
''حضرت الاستاذ (حضرت نا نو توی) نے اِس مدرسہ کوکیا درس و تدریس تعلیم و تعلم کے لیے قائم کیاتھا ؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں ١٨٥٧ء کے ہنگامہ کی ناکامی کے بعد یہ اِدارہ قائم کیا گیا کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیاجائے جس کے زیر اَثر لوگوں کو تیارکیا جائے تاکہ ٥٧ء کی نا کامی کی تلافی کی جائے، آخر میں فرمایا صرف تعلیم و تعلم ، درس و تد ریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے میں اُن کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں لیکن میں نے اپنے لیے تو اُسی راہ کا اِنتخاب کیا ہے جس کے لیے دارُ العلوم کایہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھا۔ '' (سوانح ِ قاسمی ج ٢ ص ٢٢٦ )
خانوادۂ قاسمی کے چشم و چراغ حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکا تہم اِسی مقصد کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
''حضرت الامام (حضرت نا نو توی)نے اپنی فراست آمیز اِسلامی سیاست سے اپنا محور فکرِ ملت کی اُن فطری صلاحیتوں کو بنایا کہ جو عہد ِمغولبیت میں مستور تو ہو سکتی ہیں لیکن معدوم نہیں ہوتیں اور قیادتِ سلیمہ پر بھر پوراِعتماد کے ساتھ یہ صلاحیتیں بروئے عمل آنے کے بعد شکست خوردگی کے بجائے ''ہمت آفریں شعور'' ذلت ومغلوبیت کے بجائے حوصلہ مندانہ عزم، رفعت پسندانہ اِقدامات کے نتائج کے بارے میں شکوک وشبہات کے بجائے کامیابی کا یقین اور با اِقتدار معاند قوتوں کے سامنے خود سپرد گی کے بجائے غیرت مندانہ موقف اِستقامتِ قومی زندگی کے دھارے میں اِنقلاب بر پا کرنے کاایسا مؤثر ذریعہ بنتے ہیں کہ جس کا اَدنیٰ تصور