اِن حدیثوں میں اللہ کی شانِ مغفرت اوراُس کی رحمت کا بیان ہے، ایسی حدیثوں کو سن کر گناہوں پردلیر ہونا یعنی توبہ اور مغفرت کے بھروسہ پراور زیادہ گناہ کرنے لگنا مومن کا کام نہیں، مغفرت اور رحمت کی اِن آیتوں اور حد یثوں کے مضمون سے تواللہ کی محبت بڑھنی چاہیے اور یہ سبق لینا چاہیے کہ ایسے رحیم و کریم آقا کی نا فرمانی تو بڑا ہی کمینہ پن ہے۔ ذرا سو چو اگر کسی نو کر کا آقا اُس کے ساتھ بہت ہی شفقت اوراِحسان کا برتا ؤ کرے تو کیا اُس نو کرکو اور زیادہ دلیر ہو کر اُس کی نا فرمانی کرنی چاہیے ؟
در اصل اِن آیتوں اور حدیثوں کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ کسی مومن بندہ سے اگرگناہ ہوجائے تو و ہ اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو بلکہ توبہ کر کے اُس گناہ کے داغ دھبے دھو ڈالے اور اللہ سے معافی مانگے اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اُس کو معاف کر دیں گے اور بجائے ناراضی اور غصہ کے اللہ تعالیٰ اُس سے اور زیادہ خوش ہوں گے۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا :
''بندہ جب گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رُجوع کرتا ہے اور سچے دل سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ سے اُس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری کا جا نور کسی لق و دق میدا ن میں اُس سے چھوٹ کربھا گ جائے اور اُسی پر اُس کے کھانے پینے کاسا مان لدا ہوا ہو اور وہ اُس سے با لکل ما یوس ہو کرموت کے اِنتظار میں کسی درخت کے سایہ میں لیٹ جائے اور پھر اِسی حالت میں اچانک وہ دیکھے کہ اُس کا وہ جانور اپنے پورے سامان کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اُس کو پکڑ لے اور پھر اِنتہائی خوشی اور مستی میں اُس کی زبان سے نکل جائے کہ اے اللہ ! بس تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں ١ حضور ۖ فرماتے ہیں کہ جتنی خوشی اُس شخص کو اپنی سواری کا جانور پھر سے پاکر ہوگی اللہ تعالیٰ کواپنے گناہگار بندے کی توبہ سے اِس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ ''
١ مطلب یہ ہے کہ اُس بندہ کو اِس قدر زیادہ خوشی ہو کہ فرطِ مسرت سے اُس کی زبان بہک جائے اور جو بات کہنا چاہیے اُس کا اُلٹا نکل جائے۔