ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
اِعتقاد نہ رکھنا چاہیے کہ بیمار کے ساتھ بیٹھنے سے بیماری لگ جاتی ہے ۔تو عیادت کواِس مذکورہ خطرے کی بناء پر ترک کرنا درست نہیں ہے، جہاں تک ہوسکے ہر بیمار کی عیادت کرنی چاہیے خواہ اُسے بیماری کسی بھی قسم کی ہواور وہ بیمار کسی بھی درجے کا ہو، یہ یہودی لڑکا جو بعد میں مسلمان ہوا آنحضرت ۖ کا ایک معمولی خادم تھا مگر آپ کا اَخلاق اِس قدر بلند تھا کہ بہ نفس ِنفیس عیادت کو تشریف لے گئے۔ آنحضرت ۖ نے عیادت کا طریقہ بھی بتلایا ہے، آپ نے مریض کے پاس بہت دیر تک بیٹھنے، گپیں ہانکنے اور شور مچانے سے منع فرمایا ہے، مریض کے آرام کو ملحوظ رکھنے کی تاکید فرمائی ہے اور اِس کے لیے دُعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حدیث ِ مذکور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہود بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولاکرتے تھے، توراة میں آنحضرت ۖ کی تعریف و توصیف پڑھنے کے باوجود صاف اِنکار کر دیتے تھے۔ اِس مریض لڑکے کے باپ کو آنحضرت ۖ نے اللہ کی قسم بھی دی مگر پھر بھی وہ جھوٹ سے باز نہ آیا، نہ اللہ کی قسم کی پرواہ کی اور نہ ہی خدا کے نبی کا کچھ لحاظ کیا، یہ خاصہ اُس پورے(یہودی) طبقے کا تھا جو مدینہ شریف میں رہائش پذیر تھا، اُن میں یہ ضد بازی اور ہٹ دھرمی بہت پہلے سے چلی آرہی تھی وہ ہی اِن کے اِسلام سے محرومی کا باعث بنی اور یہ(ہٹ دھرمی) اُن کا گویا قومی خاصہ ہو گیا( لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَذِیْنَ اٰمَنُوالْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا) اللہ تعالیٰ ہمیں غلط راستے پرچلنے سے محفوظ رکھے راہِ راست پر قائم رکھے اور آخرت میں آقائے نامدار ۖ کا ساتھ نصیب فرمائے،آمین۔اِختتامی دُعا.............