ابن عمر ان رسول اللہ ﷺ عامل اھل خیبر بشطر ما یخرج منھا من ثمر أو زرع۔ ( مسلم شریف ، کتاب المساقاۃ و المزارعۃ ، باب المساقاۃ و المعاملۃ بجزء من الثمر و الزرع ، ص ۶۷۸، نمبر ۱۵۵۱؍ ۳۹۶۲) (۳) عن عبد اللہ بن عمر عن رسول اللہ ﷺ انہ دفع الی یھود خیبر نخل خیبر و أرضھا علی ان یعتملوھا من اموالھم و لرسول اللہ ﷺ شطر ثمرھا ۔ ( مسلم شریف ، کتاب المساقاۃ و المزارعۃ ، باب المساقاۃ و المعاملۃ بجزء من الثمر و الزرع ، ص ۶۷۸، نمبر ۱۵۵۱؍۳۹۶۶) ان دونوں حدیثوں میں ہے کہ حضور نے اہل خیبر کو جو یہودی تھے کھیتی کرنے کا عامل بنا یا اور اس میں اس کو وکیل بنایا ، جس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم کو وکیل بنایا جا سکتا ہے ۔ (۳) ذمی کو وکیل بنانا جائز ہے اس کے لئے در مختار کی عبارت یہ ہے ۔ و صح توکیل المسلم ذمیا ببیع خمر او خنزیر و شرائھما کما مر فی البیع الفاسد ۔ ( در مختار ، کتاب الوکالۃ ، ج ثامن ، ص ۲۷۷،) اس عبارت میں ہے کہ غیر مسلم کو شراب بیچنے کا وکیل بنا سکتا ہے ۔
[۳] تیسرا اصول یہ ہے کہ شوہر غیر مسلم حاکم کے طلاق یا فسخ نکاح کے فیصلے پر راضی خوشی سے دستخط کر دے کہ ہاں مجھے یہ طلاق ، یا فسخ نکاح منظور ہے تب بھی طلاق واقع ہو جائے گی ، اور نکاح ٹوٹ جائے گا ۔ کیونکہ طلاق کے لکھنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔
وجہ : (۱) عن ابراہیم اذا کتب الطلاق بیدہ وجب علیہ ۔( مصنف ابن ابی شیبۃ ، باب فی الرجل یکتب طلاق امراتہ بیدہ ، ج رابع ، ص ۸۱، نمبر ۱۷۹۹۲؍ مصنف عبد الرزاق، باب الرجل یکتب الی امراتہ بطلاقھا ،ج سادس ، ص ۳۲۰، نمبر ۱۱۴۸۰) اس قول تابعی میں ہے کہ ہاتھ سے طلاق لکھنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ (۲) عن عطاء انہ سئل عن رجل انہ کتب طلاق امراتہ ثم ندم فأمسک الکتاب قال ان امسک فلیس بشیء و ان امضاہ فھو طلاق۔ ( مصنف ابن ابی شیبۃ ، باب فی الرجل یکتب طلاق امراتہ بیدہ ، ج رابع ، ص ۸۱، نمبر۱۷۹۹۴؍ مصنف عبد الرزاق، باب الرجل یکتب الی امراتہ بطلاقھا ،ج سادس ، ص ۳۲۰، نمبر۱۱۴۷۷) اس قول تابعی میں ہے کہ خوشی سے طلاق لکھے تو واقع ہو گی اور خوشی سے نہ لکھے تو طلاق واقع نہیں ہو گی ۔
﴿ برطانیہ میں میں غیر مسلم کورٹ سے طلاق (separation) ﴾
کی6 صورتیں اور ان کا حکم
[۱] …… اگرشوہر نے غیر مسلم حاکم کے یہاں نکاح توڑنے(Divorce petition) کے لئے مقدمہ دائر کیا تو اس سے وہ نکاح توڑنے کا وکیل بن گیا ، اور چونکہ طلاق دینے کا اختیار شوہر کو ہے ، اس لئے اب یہ اختیار اس کے وکیل کو ہو جائے گا ، چاہے وہ غیر مسلم ہو، اس لئے اس کے نکاح توڑنے (decree absolute ) کے ہوجانے سے نکاح ٹوٹ جائے گا، کیونکہ اوپر گزرا کہ وکیل بنانے کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے ، غیر مسلم حاکم بھی وکیل بن سکتا ہے ۔اس لئے اس صورت میں دوبارہ شرعی پنچایت سے نکاح توڑوانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
[۲] …… اگر عورت نے غیر مسلم حاکم کے کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ، حاکم نے شوہر کو فارم بھیجا کہ عورت نے نکاح توڑنے (tion separa ) کے لئے درخواست دی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ شوہر نے خط کا جواب د یتے ہوئے کہا کہ میں بھی آپ کو نکاح توڑنے کا وکیل بناتا ہوں [ یا قریب قریب یہی مفہوم لکھا ] تو اس سے حاکم شوہر کی جانب سے نکاح توڑنے کا وکیل بن جائے گا ، اور انکے نکاح توڑنے (tion separa ) کرنے سے نکاح ٹوٹ جائے گا ۔اس لئے اس صورت میں دوبارہ شرعی پنچایت سے نکاح توڑوانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
[۳]…… اگر عورت نے غیر مسلم حاکم کے کورٹ میں (tion separa ) کے لئے مقدمہ دائر کیا تھا ، اور ساری کاروائی کے بعد حاکم نے آخری طلاق (decree absolute )دے دی اور شوہر کو کاغذات بھیج دئے ، شوہر نے راضی خوشی سے اس پر دستخط کر دیا کہ میں اس فیصلے سے راضی ہوں اور اس کو قبول کرتا ہوں ، تو اس سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ اوپر گزرا کہ لکھنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔اس لئے اس صورت میں دوبارہ شرعی پنچایت سے نکاح توڑوانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
[۴]…… اگر عورت نے غیر مسلم حاکم کے کورٹ میں نکاح توڑنے (tion separa ) کے لئے مقدمہ دائر کیا تھا ، اور ساری کاروائی کے بعد حاکم نے آخری طلاق (decree absolute )دے دی اور شوہر کو کاغذات بھیج دئے، لیکن شوہر نے لگائے ہوئے الزام کو بھی دفع کرنے کی کوشش کی اور حاکم نے جو نکاح توڑا تھا (tion separa ) کیا تھا ، اس کا بھی انکار کیا ۔تو اب شوہر نے حاکم کو نکاح توڑنے کا نہ وکیل بنایا اور نہ ہی د ی ہوئی طلاق پر دستخط کیا ، اس لئے حاکم نہ شوہر کا وکیل بنا اور نہ اس کی طلاق پر رضامندی کا اظہار کیا اس لئے اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہو گی ، اور نہ نکاح ٹوٹے گا ، اس لئے عورت کو دوبارہ