صرف چھونے سے حرمت کیسے ہو جائے گی ، اور بغیر قصور کے عورت کا بنا بنایا گھر کیسے برباد ہو جائے گا ۔
نوٹ: ۔عورت کے پاس کئی بچے ہوں اور کوئی گھر توڑنے کے لئے زنا کر کے یا شہوت سے چھو کر حرمت مصاحرہ ثابت کردے تو شدید مجبوری میں اس مسلک پر عمل کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ اس کے لئے حدیث موجود ہے ۔
﴿(۱۷)فساد نکاح کی وجہ سے تفریق﴾
نکاح فاسد ہے مثلا [۱] بغیر گواہ کے نکاح کیا،[۲] عورت دوسرے کی عدت میں تھی اور نکاح کر لیا ، [۳]جو عورت نسبی طور پر حرام تھیں ، یادمادگی کے رشتے سے حرام تھیں ، یا اب شہوت سے چھونے سے نکاح فاسد ہو گیا،یا دودھ پلانے کی وجہ سے حرام تھیں ان سے نکاح کر لیا تو یہ نکاح فاسد ہے ، ان صورتوں میں زوجین پر متا رکت لازم ہے [ یعنی ایک دوسرے کو چھوڑ دینا لازم ہے ] ، کیونکہ اصل میں نکاح ہی نہیں ہوا ، یا نکاح ہوا تھا لیکن اب باقی نہیں رہا ۔اگر دونوں باہم جدا نہ ہوں تو قاضی دونوں کے درمیان تفریق کرادے ۔ ( مجموعہ قوانین اسلامی ، دفعہ ۸۵، ص ۲۰۶)
وجہ : نکاح ہی نہیں ہوا ہے اس لئے قاضی اس نکاح کو باقی نہیں رکھے گا۔
﴿(۱۸)غیر مسلم حاکم سے فسخ نکاح ﴾
غیر مسلم حاکم کے طلاق دینے یا فسخ نکاح کرنے سے واقع ہوگی یا نہیں ، یہ تین اصولوں پر مبنی ہے
اصول [۱] پہلا اصول یہ ہے کہ غیر مسلم حاکم کا فیصلہ دینی امور میں نافذ نہیں ہے۔
وجہ : (۱) اس آیت میں ہے کہ اپنا مسلمان حاکم ہو ۔ یحکم ذوا عدل منکم ھدیا بالغ الکعبۃ ۔ ( آیت ۹۵، سورۃ المائدۃ ۵) اس آیت میں ہے کہ تمہارے یعنی مسلمان میں سے عادل حکم ہو (۲) فاذا بلغن أجلھن فأمسکوھن بمعروفأو فارقوھن بمعروف و اشھدوا ذوا عدل منکم و اقیموا الشھادۃ للہ ۔( آیت ۲، سورۃ الطلاق ۶۵) اس آیت میں ہے کہ تمہارے مسلمان آدمی میں سے عادل کو گواہ بناؤ، اور غیر مسلم عادل نہیں ہوتا ، اس لئے وہ گواہ بھی نہیں بن سکتا اور نکاح توڑنے کا حاکم نہیں بن سکتا۔ (۳) در مختار میں ہے :و اھلہ اھل الشہادۃ ) ای ادائھا علی المسلمین کذا فی الحواشی السعدیۃ ۔و فی تفصیلہ ، و مقتضاہ ان تقلید الکافر لا یصح ۔۔ قال فی البحر۔ و بہ علم ان تقلید الکافر صحیح ، و ان لم یصح قضاؤہ علی المسلم حال کفرہ۔ ( در مختار ، کتاب القضاء ، مطلب: الحکم الفعلی، ج ثامن ، ص ۲۹) اس عبارت میں ہے کہ غیر مسلم کا فیصلہ خاص طور دینی معاملہ میں مسلمان پر نافذ نہیں ہو گا ۔
[۲] دوسرا اصول یہ ہے کہ شوہر غیر مسلم حاکم کو طلاق دینے کا یا نکاح فسخ کرنے کا وکیل بنائے تو اس کے طلاق دینے ، یا فسخ نکاح کرنے سے طلاق واقع ہو جائے گی ، اور نکاح فسخ ہو جائے گا ، وکیل بنانے کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔
وجہ : (۱) غیر مسلم کو وکیل بنانے کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن جابر بن عبد اللہ انہ سمعہ یحدث قال اردت الخروج الی خیبر فأتیت النبی ﷺ فسلمت علیہ و قلت انی أردت الخروج الی خیبر ، فقال اذا أتیت وکیلی فخذ منہ خمسۃ عشر وسقا فان ابتغی منک آیۃ فضع یدک علی ترقوقہ ۔ ( سنن بیہقی ، باب باب التوکیل فی المال ، الخ ، ج سادس ، ص ۱۳۲، نمبر ۱۱۴۳۲) اس حدیث میں وکیل سے مراد خیبر کے یہود وکیل ہے جس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم وکیل بن سکتا ہے ۔ (۲) اس حدیث کے اشارے سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم کو وکیل بنا یا جا سکتا ہے ۔ عن