﴿ہر ایک سبب کی تفصیل ﴾
﴿(۱) زوجین میں شقاق پا یا جانا﴾
ان ۱۸ ؍اسباب میں سے سب سے اہم سبب شقاق ہے ۔شقاق نہ ہو تو جوان عورت بوڑھوں کے ساتھ ہزار بیماریوں کے با وجود زندگی گزار لیتی ہے ، اور شقاق ہو تو دو جوان پڑھے لکھے خوبصورت جوڑے بھی چند دن نہیں گزار سکتے، اس لئے ان تمام اسباب میں بنیادی سبب شقاق ہے، اسی لئے مجموعہ قوانین اسلامی ، اورحیلہ ناجزہ کی ترتیب کے خلاف میں نے شقاق کو پہلے لایا ۔
شقاق کا معنی ہے پھٹن ، میاں بیوی میں اتنی نفرت ہوجائے کہ دو نوں کا آپس میں مل کر رہنا دشوار ہو جائے اس کو شقاق کہتے ہیں۔میاں بیوی میں شقاق ہو جائے تو اصلاح حال کے لئے دونوں جانب سے حکم متعین ہوں ، اور وہ دونوں کی شکایتیں سن کر اس کو سمجھانے کی کوشش کرے ، لیکن یہ کار آمد نہ ہو توتفریق کا فیصلہ کرے ۔ مجموعہ قوانین میں عبارت یہ ہے ۔(۱لف)قاضی حکمین مقرر کرے گا تاکہ اصلاح کی صورت نکل سکے(ب) اگر تحکیم کے باوجود اصلاح حال یا باہمی رضامندی سے علیحدگی کی کوئی صورت نہیں نکل سکے تو قاضی بر بنائے شقاق زوجہ کے مطالبہ کی صورت میں تفریق کر دے گا ۔( مجموعہ قوانین اسلامی ، باب زوجین میں شقاق کا پایا جانا ، دفعہ۸۲،ص ۲۰۰)
وجہ : (۱)اس کے لئے آیت یہ ہے ۔ و ان خفتم شقاق بینھما فأبعثوا حکما من أھلہ و حکما من أھلھا ان یریدآ اصلاحا یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما حکیما ۔( آیت ۳۵، سورۃ النساء ۴) اس آیت میں ہے کہ دو نوں کی جانب سے حکم ہوں جو فیصلہ کرے ۔حضرت امام مالک ؒ کے نزدیک یہ فیصلہ نافذ ہو گا ۔ موطاء امام مالک کی عبارت یہ ہے ۔قال مالک و ذالک احسن ما سمعت من اھل العلم ان الحکمین یجوز قولھما بین الرجل و امراتہ فی الفرقۃ و الاجتماع۔( مؤطاء امام مالک ، باب ما جاء فی الحکمین ، ص ۵۲۷) اس میں ہے کہ حکمین جمع بھی کر سکتے ہیں اور تفریق بھی کر سکتے ہیں ۔
وجہ : (۱)…… اس کی وجہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول ہے ۔عن ابن عباس قال بعثت انا و معاویۃ حکمین ، فقیل لنا ان رأیتما ان تجمعا جمعتما ، و ان رأیتما ان تفرقا فرقتما ، قال معمر و بلغنی ان الذی بعثھما عثمان ۔ ( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۹۰، نمبر۱۱۹۲۹؍ سنن بیہقی ، باب الحکمین فی الشقاق بین الزوجین ،ج سابع ، ص ۴۹۹، نمبر۱۴۷۸۶) اس قول صحابی میں ہے کہ حکمین کو تفریق کرنے کا بھی حق ہے
(۲)…… اس قول صحابی میں بھی ہے عن عبیدۃ السلمانی قال شھدت علی ؓبن ابی طالب ، و جائتہ أمرأۃ و زوجھا ، مع کل واحد منھما فئام من الناس فأخرج ھؤلاء حکما من الناس ، و ھؤلاء حکما ، فقال علی ؓ للحکمین أتدریان ما علیکما ؟ ان رأیتما ان تفرقا فرقتما و ان رأیتما ان تجمعا جمعتما فقال الزوج أما الفرقۃ فلا فقال علی ؓ کذبت و اللہ لا تبرح حتی ترضی بکتاب اللہ لک و علیک، فقالت المرأۃ رضیت بکتاب اللہ تعالی لی و علی ّ۔( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۸۹، نمبر۱۱۹۲۷؍ سنن بیہقی ، باب الحکمین فی الشقاق بین الزوجین ،ج سابع ، ص ۴۹۸، نمبر ۱۴۷۸۲) اس قول صحابی میں ہے کہ حکمین کو تفریق کرنے کا بھی حق ہے
کوئی وجہ نہ ہو صرف آپس میں دل نہ ملتا ہو ، اور آیندہ ملنے کی کوئی سبیل نہ ہو تب بھی تفریق کی جا سکتی ہے ، اس کا ثبوت اس حدیث میں ہے ۔عن ابن عباس انہ قال جا ئت امراۃ ثابت بن قیس الی رسول اللہ ﷺ فقالت یا رسول اللہ انی لا اعتب علی ثابت فی دین و لا خلق و لکنی لا أطیقہ ، فقال رسول اللہ ﷺ فتردین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم۔ ( بخاری شریف ، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ ، ص ۹۴۳، نمبر ۵۲۷۵؍ ابن ماجۃ ، باب المختلعۃ یأخذ ما أعطاھا، ص ۲۹۴، نمبر ۲۰۵۶) اس حدیث میں ہے کہ شوہر کا دین اور اخلاق اچھے تھے لیکن دل نہیں مل رہا تھا تو آپ نے خلع کی اجازت دی ، اور وہ نہ کرے یا مجبور کرے تو قاضی تفریق بھی کرا سکتا ہے ۔(۲) اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔عن ابن عباس أن امرأۃ ثابت بن قیس اتت النبی ﷺ فقالت یا رسول اللہ ثابت بن قیس ما اعتب علیہ فی خلق و لا دین و لکنی أکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ ﷺ أتریدین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم قال رسول اللہ ﷺ اقبل الحدیقۃ و طلقھا تطلیقۃ ۔( بخاری شریف ، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ ، ص ۹۴۳، نمبر ۵۲۷۳؍ ابن ماجۃ ، باب المختلعۃ یأخذ ما أعطاھا، ص ۲۹۴، نمبر ۲۰۵۶)
فائدہ : امام شافعی ؒ کی رائے ہے کہ حکمین کو زوجین تفریق کرنے کاوکیل بنائے تب تو تفریق کر سکتے ہیں ورنہ نہیں موسوعہ میں عبارت یہ ہے ۔قال و لیس لہ ان یأمرھما یفرقان ان رأیا الا بأمر الزوج ، و لا یعطیا من مال المرأۃ الا بأذنھا ۔( موسوعۃ امام شافعی ؒ ، باب الحکمین ، ج احدی عشرۃ ، ص ۱۶۸، نمبر ۱۸۸۱۶) اس عبارت میں ہے کہ زوجین وکیل بنائے تب تفریق کر سکتا ہے ورنہ نہیں ۔
موسوعہ میں یہ بھی ہے ۔و اذا کان الخبر یدل علی ان معنی الآیۃ ان یجوز علی الزوجین و کالۃ الحکمین فی الفرقۃ و الاجتماع بالتفویض الیھما دل ذالک علی جواز الوکالات و کانت ھذہ الآیۃ للوکالات اصلا وللہ اعلم ۔ ( موسوعۃ امام شافعی ؒ باب الشقاق بین الزوجین ، ج عاشرۃ ، ص ۴۰۰، نمبر ۱۷۰۸۰) اس عبارت میں ہے کہ میاں بیوی وکیل بنائے تب اس کو تفریق کرانے کا حق ہو گا۔)
وجہ : (۱) انکی دلیل یہ قول تابعی ہے ۔عن عطاء قال لہ انسان أیفرقان الحکمان ؟ قال لا الا ان یجعل الزوجان ذالک بأیدھما ۔( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۸۹، نمبر۱۱۹۲۴) اس اثر میں ہے کہ حکمین تفریق نہیں کر سکتے ، مگر یہ کہ زوجین اس کو تفریق سپرد کر دے ۔