۱۱۹۲۰) اس قول تابعی میں ہے کہ ضرب غیر مبرح مارے ۔اور اوپر کی حدیث سے زیادہ مارنے پر تفریق لے لی ۔
﴿(۶) شوہر کا مفقود الخبر ہو نا ﴾
مفقود الخبر: اس غائب کو کہتے ہیں جس کا کوئی پتہ نہ ہو ، اور نہ اس کی موت و حیات کی کوئی خبر ہو ۔ اگر کسی خاتون کا شوہر اس طرح لاپتہ ہوتو اس کو قاضی کے ذریعہ نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے ۔[۱]اب اگر عورت کے پاس نفقے کا انتظام ہو اور معصیت میں مبتلاء ہو نے کا شدید خطرہ ہو تو چار سال تک انتظار کرنے اور شوہر کو تلاش کرنے کی مہلت دی جائے گی ۔[۲] اور اگر عورت کے پاس نفقے کا کوئی انتظام نہ ہو ، یا معصیت اور گناہ [زنا] میں مبتلاء ہو نے کا خطرہ ہو تو ایک سال تک تلاش کرنے کی مہلت دی جائے گی ، اس کے بعد شوہر کے مر جانے کا فیصلہ کیا جائے گا اور عورت کو عدت وفات چار مہینے دس روز گزار کر پہلے شوہر سے چھٹکارا دے دیا جائے گا [۳] پس اگر اس جستجو کے درمیان شوہر آگیا،یعنی ایک سال کی مہلت کے وقت ایک سال کے اندر ، اور چار کی مہلت کے وقت چار سال کے اندر آگیا تو درخواست خارج کر کے بیوی شوہر کو دے دی جائے گی ،اور اگر دوسرے شوہر سے شادی کے بعد آیا تب بھی ایک فتوی یہی ہے کہ بیوی پہلے شوہر کا ہی ہے ۔ ( مجموعہ قوانین اسلامی ،دفعہ ۷۷؍ ص ۱۹۵؍ حیلہ ناجزہ ، باب حکم زوجہ مفقود،ص ۵۹)
وجہ : (۱) چار سال تک انتظار کیا جائے گا اس کی دلیل یہ قول صحابی ہے ۔ عن ابی عثمان قال اتت امرأۃ عمر بن الخطاب قال استھوت الجن زوجھا فامرھا ان تتربص اربع سنین ثم امر ولی الذی استھوتہ الجن ان یطلقھا ثم امرھا ان تعتد اربعۃ اشہر وعشرا ۔ (دار قطنی ، کتاب النکاح ،ج ثالث ،ص ۲۱۷ ،نمبر ۳۸۰۳؍ سنن للبیہقی ، باب من قال تنتظر اربع سنین ثم اربعۃ اشھر وعشرا ثم تحل ،ج سابع ،ص ۷۳۲، نمبر ۱۵۵۶۶؍ مصنف عبد الرزاق ، باب التی لا تعلم مھلک زوجھا، ج سابع ،ص۶۴، نمبر۱۲۳۶۵) اس قول صحابی سے معلوم ہوا کہ چار سال گزار کر موت کا فیصلہ دیا جائے گا۔ (۲) اس قول صحابی میں ہے۔انہ شہد ابن عباس و ابن عمر ؓ تذاکراامرأۃ المفقود فقالا تربص بنفسھا أربع سنین ثم تعتد عدۃالوفاۃ ثم ذکروا النفقۃ فقال ابن عمر لھا نفقتھا لحبسھا نفسھا علیہ ۔ (؍سنن للبیہقی،باب من قال تنتظراربع سنین ثم اربعۃ اشہر وعشرا ثم تحل ،ج سابع، ص ۷۳۳، نمبر ۱۵۵۶۹) اس قول صحابی سے معلوم ہوا کہ مفقود کے مال میں سے اس کی بیوی پر خرچ کیا جائے گا۔(۳)اس اتابعی میں بھی ہے ۔عن قتادۃ قال اذا مضت اربع سنین من حین ترفع امرأۃ المفقود امرھا انہ یقسم مالہ بین ورثتہ ۔ (مصنف عبد الرزاق ، باب التی لاتعلم مھلک زوجھا، ج سابع، ص۶۷، نمبر۱۲۳۷۷) ا س قول تابعی میں بھی ہے کہ چار سال کے بعد موت کا حکم لگایا جائے گا ۔اور مجبوری میں ایک سال کی مہلت دی جائے گی اس کی دلیل یہ قول تابعی ہے (۱) و قال ابن المسیب اذا فقد فی الصف عند القتال تربص امرأتہ سنۃ ، و اشتری ابن مسعود جاریۃ فالتمس صاحبھا سنۃ فلم یجدہ ۔( بخاری شریف ، باب حکم المفقود فی اہلہ و مالہ ، ص ۹۴۵،نمبر ۵۲۹۲) اس قول تابعی میں ہے کہ مفقود کی بیوی کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی ۔(۲) عن ابن المسیب قال اذا فقد فی الصف تربصت سنۃ و اذا فقد فی غیر الصف فأربع سنین ۔( مصنف عبد الرزاق ، باب التی لا تعلم مھلک زوجھا ، ج سابع ، ص ۶۷، نمبر ۱۲۳۷۴) اس تابعی میں بھی ہے کہ قتال کے صف میں ہو تو ایک سال کی مہلت دی جائے گی ، اسی پر قیاس کرکے مجبوری کے وقت ایک سال کی مہلت دی جائے گی ۔
[۳] حضرت امام مالک ؒ کا مسلک یہ ہے ۔ عام حالات میں چار سال کی مہلت دی جائے اور مجبوری ہو تو ایک سال کی مہلت دی جائے گی ۔مختصر الخلیل کی عبارت یہ ہے ولزوجۃ المفقود : الرفع للقاضی، و الوالی ، و والی الماء ، و الا فلجماعۃ المسلمین فیؤجل الحر أربع سنین ان دامت نفقتہا ۔( مختصر خلیل ، للعلامۃ الشیخ خلیل بن اسحاق المالکی ، باب فصل فی مسائل زوجۃ المفقود، ص۱۶۳) اس