(۴) ……عن الزھری قال تفریق الامام تطلیقۃ ۔( مصنف ابن ابی شیبۃ ، من قال اذا ابی ان یسلم فھی تطلیقۃ، ج رابع ، ص ۱۱۰، نمبر ۱۸۳۱۰) اس قول تابعی میں ہے کہ امام یعنی قاضی تفریق کرائے تو تفریق ہو جائے گی
﴿شرعی پنچائت مذہب مالکی سے مأخوذ ہے ﴾
مالکی مذہب میں یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں جہاں اسلامی قاضی نہ ہو وہاں مقدمات کا مرافعہ جماعت مسلمین کے پاس کیا جا سکتا ہے، جسکو شرعی پنچایت ، یا امارت شرعیہ کہتے ہیں ، وہی فیصلے کے لئے قاضی اور حاکم کی حیثیت رکھے گی اور اس کی تفریق سے قاضی کی تفریق کی طرح فسخ نکاح شمار کیا جائے گا ، یا کسی بھی مقدمے میں شریعت کے تحت فیصلے کے بعد شرعی حیثیت حاصل ہو جائے گی ،مالکی مذہب کی عبارت یہ ہے ۔ ولزوجۃ المفقود : الرفع للقاضی، و الوالی ، و والی الماء ، و الا فلجماعۃ المسلمین۔( مختصر خلیل ، للعلامۃ الشیخ خلیل بن اسحاق المالکی ، باب فصل فی مسائل زوجۃ المفقود، ص۱۶۳) اس عبارت میں ہے کہ جس کا شوہر لا پتہ ہو تو اس کا معاملہ قاضی کے پاس لے جائے ، اور والی کے پاس لے جائے ، اور پانی کے والی کے پاس لے جائے، اور ان میں سے کوئی نہ ہوں تو جماعت مسلمین کے پاس لے جائے ، جسکو شرعی پنچائت ، یا امارت شرعیہ کہتے ہیں ، وہ اس کا فیصلہ کریں۔
انکے یہاں تو اتنی گنجائش ہے کہ عورت کی جانب سے حکم ، اور شوہر کی جانب سے حکم تفریق کا فیصلہ کریں تب بھی تفریق واقع ہو جاتی ہے چاہے میاں بیوی ، اور حاکم راضی نہ ہوں ۔مختصر الخلیل کی عبارت یہ ہے ۔[۱]……و ان اشکل بعث حکمین و ان لم یدخل بھا من أھلھما ان أمکن و ندب کونھما جارین و بطل حکم غیر العدل و سفیہ و امراۃ و غیر فقیہ بذالک و نفذ طلاقھما و ان لم یرض الزوجان و الحاکم و لو کانا من جھتھما ۔( مختصر خلیل ، للعلامۃ الشیخ خلیل بن اسحاق المالکی ، باب فصل فی القسم بین الزوجات و النشوز، ص ۱۴۰) اس عبارت میں ہے کہ حاکم اور میاں بیوی راضی نہ بھی ہوں تب بھی حکمین کا فیصلہ نافذ ہو جائے گا ، البتہ حکمین عادل ہو ں، عاقل ، بالغ ، ہوں مرد ہوں ، آزاد ہوں ، بیوقوف نہ ہوں عورت نہ ہوں تب انکا فیصلہ نافذ ہو گا ۔
[۲] ……و لھا التطلیق بالضرر البین۔( مختصر خلیل ، للعلامۃ الشیخ خلیل بن اسحاق المالکی ، باب فصل فی القسم بین الزوجات و النشوز، ص ۱۴۰) اس عبارت میں ہے کہ عورت کو ظاہر نقصان دے رہا ہو تو حکم طلاق دلوا سکتا ہے ۔
[۳]…… فان تعذر فان أساء الزوج طلقا بلا خلع و بالعکس۔ ( مختصر خلیل ، للعلامۃ الشیخ خلیل بن اسحاق المالکی ، باب فصل فی القسم بین الزوجات و النشوز، ص ۱۴۰) اس عبارت میں ہے کہ شوہر نا فرمانی کرے توحکم خلع کے بغیر بھی طلاق دے سکتا ہے ، اور خلع کے ساتھ بھی طلاق دے سکتا ہے ۔
[۴] ……خود حضرت امام مالک ؒ کی عبارت یہ ہے ۔قال مالک و ذالک احسن ما سمعت من اھل العلم ان الحکمین یجوز قولھما بین الرجل و امراتہ فی الفرقۃ و الاجتماع۔( مؤطاء امام مالک ، باب ما جاء فی الحکمین ، ص ۵۲۷) اس میں ہے کہ حکمین جمع بھی کر سکتے ہیں اور تفریق بھی کر سکتے ہیں ۔
وجہ : (۱) قاضی کو تفریق کا اختیار دینے ، یا شرعی پنچایت کو اختیار دینے کی وجہ یہ ہے کہ عورت کو ضرر بین ہو گا ، اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو گا ، اس لئے قاضی کو تفریق کا اختیار دیا جائے اور جہاں وہ نہ ہو تو جماعۃ المسلمین یعنی شرعی پنچایت کو اس کا اختیار ہو گا ۔ (۲) اس آیت میں ہے کہ حکم بھیجو۔ و ان خفتم شقاق بینھما فأبعثوا حکما من أھلہ و حکما من أھلھا ان یریدآ اصلاحا یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما حکیما ۔( آیت ۳۵، سورۃ النساء ۴) اس آیت میں ہے کہ دو نوں کی جانب سے حکم ہوں جو فیصلہ کرے ۔
اس آیت کی تفسیر اس قول صحابی میں ہے[۱] ۔عن عبیدۃ السلمانی قال شھدت علی ؓبن ابی طالب ، و جائتہ أمرأۃ و زوجھا ، مع کل واحد منھما فئام من الناس فأخرج ھؤلاء حکما من الناس ، و ھؤلاء حکما ، فقال علی ؓ للحکمین أتدریان ما علیکما ؟ ان رأیتما ان تفرقا فرقتما و ان رأیتما ان تجمعا جمعتما فقال الزوج أما الفرقۃ فلا فقال علی ؓ کذبت و اللہ لا تبرح حتی ترضی بکتاب اللہ لک و علیک ، فقالت المرأۃ رضیت بکتاب اللہ تعالی لی و علی ّ۔( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۸۹، نمبر۱۱۹۲۷؍ سنن بیہقی ، باب الحکمین فی الشقاق بین الزوجین ،ج سابع ، ص ۴۹۸، نمبر ۱۴۷۸۲) اس قول صحابی میں ہے کہ حکمین کو تفریق کرنے کا بھی حق ہے ۔ [۲] اس قول صحابی میں بھی ہے ۔عن ابن عباس قال بعثت انا و معاویۃ حکمین ، فقیل لنا ان رأیتما ان تجمعا جمعتما ، و ان رأیتما ان تفرقا فرقتما ، قال معمر و بلغنی ان الذی بعثھما عثمان ۔ ( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۹۰، نمبر۱۱۹۲۹؍ سنن بیہقی ، باب الحکمین فی الشقاق بین الزوجین ،ج سابع ، ص ۴۹۹، نمبر۱۴۷۸۶) اس قول صحابی میں ہے کہ حکمین کو تفریق کرنے کا بھی حق ہے ۔