وجہ :(۱) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی وجہ نہ ہو صرف آپس میں دل نہ ملتا ہو ، اور آیندہ ملنے کی کوئی سبیل نہ ہو تب بھی تفریق کی جا سکتی ہے ۔عن ابن عباس انہ قال جا ئت امراۃ ثابت بن قیس الی رسول اللہ ﷺ فقالت یا رسول اللہ انی لا اعتب علی ثابت فی دین و لا خلق و لکنی لا أطیقہ ، فقال رسول اللہ ﷺ فتردین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم۔ ( بخاری شریف ، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ ، ص ۹۴۳، نمبر ۵۲۷۵؍ ابن ماجۃ ، باب المختلعۃ یأخذ ما أعطاھا، ص ۲۹۴، نمبر ۲۰۵۶) اس حدیث میں ہے کہ شوہر کا دین اور اخلاق اچھے تھے لیکن دل نہیں مل رہا تھا تو آپ نے خلع کی اجازت دی ، اور وہ نہ کرے یا مجبور کرے تو قاضی تفریق بھی کرا سکتا ہے ۔(۲) اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔عن ابن عباس أن امرأۃ ثابت بن قیس اتت النبی ﷺ فقالت یا رسول اللہ ثابت بن قیس ما اعتب علیہ فی خلق و لا دین و لکنی أکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ ﷺ أتریدین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم قال رسول اللہ ﷺ اقبل الحدیقۃ و طلقھا تطلیقۃ ۔( بخاری شریف ، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ ، ص ۹۴۳، نمبر ۵۲۷۳؍ ابن ماجۃ ، باب المختلعۃ یأخذ ما أعطاھا، ص ۲۹۴، نمبر ۲۰۵۶)
﴿ اچانک تین طلاق واقع ہوگئی تو راستہ کیا ہے﴾
ایسا بھی ہوتا ہے کہ مثلا چار بچے ہیں ، عورت کی عمر 40 سال ہے، وہ اس عمر میں ہے کہ دوسری شادی بھی نہیں کر سکتی ، اور غصے میں آکر شوہر نے تین طلاق دے دی، اب شوہر پچتا رہا ہے ، عورت کو دوبارہ رکھنا بھی چاہتا ہے ، عورت بھی رہنا چاہتی ہے ، اب اس عمر میں جائے بھی تو کہاں جائے ، بھائی بھی رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے ، پھر علیحدہ ہونے کی صورت میں ان چار بچوں کا کیا بنے گا ایسی عورت کی زندگی اندھیرے میں پھنس جاتی ہے اور وہ سسکتی رہتی ہے
بارہا یہ دیکھا گیا ہے کہ حلالہ کے ڈر سے میاں بیوی دم سادھ لیتے ہیں اور پھر ساتھ رہنے لگتے ہیں اور زندگی بھر حرام میں مبتلاء رہتے ہیں ، کچھ زمزنہ گزر جانے کے بعد تو کوئی اس کا ذکر بھی نہیں کرتا کہ ہاں ان دونوں کے درمیان طلاق مغلظہ واقع ہوئی ہے ۔
بعض لوگ یہ بھی کرتے ہیں ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک طلاق شمار کر لیتے ہیں اور پھر حلالہ کی ضرورت نہیں سمجھتے ، اور ساتھ رہنے لگتے ہیں
یہ تو طے ہے کہ تین طلاق واقع ہوچکی ہے اس لئے حلالہ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے بعض حضرات کی رائے ہے کہ ایسی مجبوری کی صورت میں حلالہ کا اقدام کرے۔
اس شرط پر نکاح کرنا کہ مجھے چھوڑ دوگے مکروہ ہے، حدیث میں ایسے مرد کو تیس مستعار [ مانگا ہوا سانڈھ ] کہا ہے ۔، اور اندر نیت تو ہو لیکن شوہر سے چھوڑنے کی شرط نہ کرے تو کراہیت کم ہے، تاہم ایسی مجبوری میں اس کراہیت کا ارتکاب کرے اور دوسری شادی کر لے ، اور دوسرے شوہر سے وطی کے بعد طلاق لے اور پھر عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرے ۔
بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس دوسرے شوہر سے نکاح کرتی وہ اس کو طلاق نہیں دیتا ، یا خوبصورتی کی وجہ سے یا بھاری رقم وصول کرنے کے لئے لٹکائے رکھتا ہے ، اس لئے اس کی صورت ئی نکالی ہے کہ نکاح سے پہلے عورت تفویض لے لے ۔ یعنی شوہرسے یہ شرط لکھوا لے کہ نکاح کے بعد میں اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہوں ۔ یا کسی سمجھدار آدمی کے لئے یہ تفویض لے لے کہ شوہر طلاق نہ دے تو وہ طلاق دے سکتا ہے ، اس صورت میں شوہر جلدی طلاق نہ دے تو عورت خود کو طلاق دے کر اپنے آپ کو فارغ کر لے ، اور عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کر لے ۔
و السلام
احقر ثمیر الدین قاسمی
۲۶ ؍۱۱؍ ۲۰۱۲ ء