میں بھی اس کا ثبوت ہے۔ان ابا ھریرۃان النبی ﷺ قال لا تنکح الایم حتی تستأمر ولا تنکح البکر حتی تستأذن قالوا یارسول اللہ ﷺ کیف اذنھا ؟ قال ان تسکت ۔ (بخاری شریف ، باب لا ینکح الاب وغیرہ البکر والثیب الا برضاھا ،ص ۷۷۱ ،نمبر ۵۱۳۶؍ مسلم شریف ، استئذان الثیب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت ،ص ۴۵۵ ،نمبر ۱۴۱۹؍ ۳۴۷۳؍ ابو داؤد شریف ، باب فی الاستیمار ،ص ۲۹۲ ،نمبر ۲۰۹۲؍ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی استیمار البکروالثیب ،ص ۲۱۰ ،نمبر ۱۱۰۷)اس حدیث میں ہے کہ ثیبہ اور باکرہ سے جب تک اجازت نہ لے لی جائے تب تک نکاح نہ کیا جائے یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اصل حق عورت کوہے۔اس لئے بغیرولی کے بھی وہ شادی کرلے تو شادی ہو جائے گی (۴) دوسری حدیث میں ہے۔عن خنساء بنت حذام الانصاریۃ ان اباھا زوجھا وہی ثیب فکرھت ذلک فاتت رسول اللہ فرد نکاحہ ، (بخاری شریف ، باب اذ زوج الرجل ابنتہ وھی کارھۃ فنکاحہ مردود ،ص ۷۷۱ ،نمبر ۵۱۳۸؍ ابو داؤد شریف ، باب فی الثیب ص ۲۹۳ نمبر ۲۱۰۱) اس حدیث میں ثیبہ عورت کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے کیا تو آپؐ نے اس کو رد کر دیا۔جس سے معلوم ہوا کہ نکاح کا اصل حق عورت کو ہے۔
لیکن غیر کفو میں نکاح کرنے سے اولیاء کو تفریق کرانے کا حق ہو گا اس کا ثبوت اس حدیث میں ہے (۵)حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوگا۔عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ ایما امرأۃ نکحت بغیر اذن موالیھا فنکاحھا باطل ثلاث مرات فان دخل بھا فالمھر لھا بما اصاب منھا فان تشاجروا فالسلطان ولی من لاولی لہ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی الولی ص ۲۹۱ نمبر ۲۰۸۳) (۶)اور ترمذی میں اس طرح عبارت ہے۔عن ابی موسی قال قال رسول اللہ ﷺ لا نکاح الا بولی۔ (ترمذی شریف، باب ماجاء لا نکاح الا بولی، ص ۲۰۸ ،نمبر ۱۱۰۱؍ ابن ماجہ شریف ، باب لا نکاح الا بولی ،ص ۲۶۹ ،نمبر ۱۸۷۹) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوگا۔
[۶] بالغہ لڑکی اور ولی دونوں نے بشرط کفائت نکاح کیا یا شوہر کے ایسے بیان پر جس میں اس نے اپنے کو کفو ظاہر کیا ، اس کو کفو سمجھ کر نکاح کیا گیا ، اور بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ کفو نہیں ہے تو ان صورتوں میں ولی اور اس بالغہ دونوں کو خیار کفاء ت حاصل ہو گا اور قاضی کے ذریعہ نکاح فسخ کرایا جا سکے گا ۔
وجہ : (۱)کیونکہ اس نے دھوکا دیا ہے ، اور حقیقت میں لڑکی یا ولی راضی نہیں تھے ۔ (۲) اس اثر میں اس کا ثبوت ہے ۔ عن الثوری قال لو ان رجلا أتی قوما فقال انی عربی فتزوج الیھم فوجدوہ مولی ، کان لھم أن یردوا نکاحہ ، و ان قال أنا مولی فوجدوہ نبطیا رد النکاح ۔( مصنف عبد الرزاق، باب الأکفاء ، ج سادس، ص ۱۲۴، نمبر ۱۰۳۶۸) اس قول تابعی میں ہے کہ دھوکا دیکر نکاح کیا تو نکاح توڑوانے کا حق حاصل ہے ۔
[۷] باپ یا دادا نا بالغ اولاد کا نکاح کفاء ت کی شرط پر یا کفاء ت کے بارے میں فریق ثانی کے بیان پر اعتماد کر کے اس کے ساتھ نکاح کردیں ، پھر اس کے خلاف ظاہر ہوا تو باپ دادا کو عدم کفائت کی بنیاد پر قاضی کے ذریعہ تفریق کا حق حاصل ہو گا ، بلکہ اولاد ( جس کا نکاح باپ دادا نے کیا ہے ) اگر بالغ ہو چکی ہے اور اس کے بلوغ سے پہلے باپ دادا نے عدم کفاء ت ظاہر ہو نے کے بعد اس نکاح پر رضامندی ظاہر نہیں کی تو اولاد کو بھی عدم کفاء ت کی بنیاد پر قاضی کے ذریعہ حق تفریق حاصل ہو گا ۔ ، البتہ عدم کفو کی بنا پر ولادت نہ ہو نے تک ، یا حمل ظاہر نہ ہونے تک تفریق کا حق حاصل ہو گا ، کیونکہ اس کے بعد بچے کا نقصان ہے ۔ ( مجموعہ قوانین اسلامی ، دفعہ ۷۰، ص ۱۹۰
وجہ : اس کی دلیل وہی ہے جو نمبر ۶ میں گزرا کہ دھوکا دیا ہے ، اس لئے تفریق کرانے کا حق ہو گا۔
﴿(۱۳)مہر میں غیر معمولی کمی ﴾
بالغہ لڑکی نے اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر ایسے مہر پر کر لیا جو مہر مثل سے بہت کم ہے تو ولی عصبہ کو حق ہو گا کہ مہر مثل پورا کرائے ، اگر شوہر مہر مثل پورا کرنے پر راضی نہ ہو تو ولی قاضی کے ذریعہ تفریق کرا سکتا ہے ۔( مجموعہ قوانین اسلامی ، دفعہ ۷۱، ص ۱۹۱)
وجہ : عرب میں مہر مثل سے بہت کم ہو نا عار کی چیز ہے اس لئے ولی کم مہر سے راضی نہیں ہو گا اس لئے عار کو دور کرنے کے لئے تفریق کروا سکتا ہے ۔