: آگے کے سارے مسائل کے لئے ایک اصول یہ ہے کہ نبھنے کی کوئی شکل باقی نہ رہے تو پھر عورت کو کالمعلقہ نہیں چھوڑدی جائے گی ، کہ زندگی بھر پریشان رہے نہ شوہر کے ساتھ ہو اور نہ شادی کر سکے اس لئے آیت اور حدیث لا ضرر و لا ضرار کے تحت آخر اس کو چھٹکارا دینا پڑے گا ۔
وجہ : (۱)…… و لا تمسکوھن ضرارا لتعتدوا ومن یفعل ذالک فقد ظلم نفسہ (آیت ۲۳۱، سورۃ البقرۃ۲) اس آیت میں ہے کہ نقصان دینے کے لئے عورت کو مت روکو
(۲)……اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم و لا تضاروھن لتضیقواعلیھن ۔(آیت ۶، سورۃ الطلاق ۶۵) اس آیت میں بھی ہے کہ عورت کو ضرر نہ دو ۔
(۳)…… عن ابی سعید الخدری أن رسول اللہ ﷺ قال لا ضرر و لا ضرار ، من ضار ضرہ اللہ ومن شاق شق اللہ علیہ ۔ ( دار قطنی ، باب کتاب البیوع ، ج ثالث ، ص ۶۴، نمبر ۳۰۶۰) اس حدیث میں بھی ہے کہ ضرر نہ دو۔
(۴) ……اس آیت میں ہے کہ معروف کے ساتھ بیوی کو رکھو ورنہ احسان کے ساتھ چھوڑ دو ، اور شوہر نہ چھوڑے تو حاکم اس کی نیابت میں تفریق کرا دے ،آیت یہ ہے ۔فاذا بلغن أجلھن فأمسکوھن بمعروف أو فارقوھن بمعروف و أشھدواذوی عدل منکم و أقیموا الشہادۃ للہ ذالکم یوعظ بہ من کان یؤمن باللہ و الیوم الآخر ۔( آیت ۲، سورۃ الطلاق ۶۵) اس آیت میں ہے کہ معروف کے ساتھ رکھو یا احسان کے ساتھ چھوڑ دو۔
ان آیتوں اور حدیث سے ثابت ہوا کہ ایسی عورت کے لئے فسخ نکاح کا کوئی راستہ ضرور نکالنا ہوگا ، تاکہ باقی زندگی سکون سے گزار سکے۔
﴿ اور شقاق کی صورت میں فیصل کو تفریق کرنے کا حق ہے﴾
اسکی دلیل یہ آیت اور یہ قول صحابی ہے
وجہ :(۱)…… و ان خفتم شقاق بینھما فأبعثوا حکما من أھلہ و حکما من أھلھا ان یریدآ اصلاحا یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما حکیما ۔( آیت ۳۵، سورۃ النساء ۴) اس آیت میں ہے کہ دو نوں کی جانب سے حکم ہوں جو فیصلہ کرے ۔
(۲)……اس آیت کی تفسیرحضرت علی ؓ کے قول میں یہ ہے[۱] ۔عن عبیدۃ السلمانی قال شھدت علی ؓبن ابی طالب ، و جائتہ أمرأۃ و زوجھا ، مع کل واحد منھما فئام من الناس فأخرج ھؤلاء حکما من الناس ، و ھؤلاء حکما ، فقال علی ؓ للحکمین أتدریان ما علیکما ؟ ان رأیتما ان تفرقا فرقتما و ان رأیتما ان تجمعا جمعتما فقال الزوج أما الفرقۃ فلا فقال علی ؓ کذبت و اللہ لا تبرح حتی ترضی بکتاب اللہ لک و علیک ، فقالت المرأۃ رضیت بکتاب اللہ تعالی لی و علی ّ۔( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۸۹، نمبر۱۱۹۲۷؍ سنن بیہقی ، باب الحکمین فی الشقاق بین الزوجین ،ج سابع ، ص ۴۹۸، نمبر ۱۴۷۸۲) اس قول صحابی میں ہے کہ حکمین کو تفریق کرنے کا بھی حق ہے ۔
[۳] حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت معاویہ ؓ کا قول یہ ہے ۔عن ابن عباس قال بعثت انا و معاویۃ حکمین ، فقیل لنا ان رأیتما ان تجمعا جمعتما ، و ان رأیتما ان تفرقا فرقتما ، قال معمر و بلغنی ان الذی بعثھما عثمان ۔ ( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۹۰، نمبر۱۱۹۲۹؍ سنن بیہقی ، باب الحکمین فی الشقاق بین الزوجین ،ج سابع ، ص ۴۹۹، نمبر۱۴۷۸۶) اس قول صحابی میں ہے کہ حکمین کو تفریق کرنے کا بھی حق ہے
﴿اختلافی صورت میں قاضی کا فیصلہ قابل نفاذ ہے ﴾
اختلافی صورت میں قاضی اور حاکم کا فیصلہ قابل نفاذ ہے ، اگر وہ شریعت کے حدود و قیود میں رہ کر فیصلہ کرے تو اس پر عمل کیا جائے گا ۔
وجہ : اس آیت میں اس کا ثبوت ہی
(۱)…… یا آیھا الذین آمنوا أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول و أولی الامر منکم فان تنزعتم فی شیء فردوہ الی اللہ و الرسول ان کنتم تؤمنون باللہ و الیوم الآخر ذالک خیر و ا حسن تأویلا ۔( آیت ۵۹، سورۃ النساء ۴)
(۲)…… و اذا جآئھم أمر من الامن أو الخوف أذا عوا بہ و لو ردوہ الی الرسول و الی أولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم۔ ( آیت ۸۳، سورۃ النساء ۴ ) ان دونوں آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حاکم فیصلہ کرے ۔
(۳) ……اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔عن عائشۃ أن حبیبۃ بنت سھل کانت عند ثابت بن قیس بن شماس فضربھا فکسر بعضھا فأتت النبی ﷺ بعد الصبح فاشتکتہ الیہ فدعا النبی ﷺ ثابتا فقال خذ بعض مالھا و فارقھا فقال ویصلح ذالک یا رسول اللہ ؟ قال نعم قال فانی أصدقتھا حدیقتین و ھما بیدھا فقال النبی ﷺ خذھما ففارقھا ففعل ۔( ابوداود شریف، باب فی الخلع ، ص۳۲۳، نمبر ۲۲۲۸) اس میں حضور ؐ حاکم اور قاضی تھے اور آپ نے فیصلہ فر مایا ۔