لیکن حاکم کوئی فیصلہ کر نا چاہے تو کر سکتا ہے ، مو سوعہ کی عبارت یہ ہے ۔قال : فان اصطلح الزوجان و الا کان علی الحاکم ان یحکم لکل واحد منھما علی صاحبہ بما یلزمہ من حق فی نفس و مال و ادب ۔ ( موسوعۃ امام شافعی ؒ ، باب الحکمین ، ج احدی عشرۃ ، ص ۱۶۸، نمبر ۱۸۸۱۷) اس عبارت میں ہے کہ حاکم زوجین پر کوئی فیصلہ کر نا چاہے تو کر سکتا ہے ۔
فائدہ : امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے ہے کہ حکمین کو تفریق کر نے کا حق نہیں ہے ، صرف اصلاح کرنے کا حق ہے ۔
وجہ : (۱) آیت کا انداز یہ ہے کہ حکمین صرف اصلاح کر سکتے ہیں ، آیت کو دیکھیں ۔ و ان خفتم شقاق بینھما فأبعثوا حکما من أھلہ و حکما من أھلھا ان یریدآ اصلاحا یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما حکیما ۔( آیت ۳۵، سورۃ النساء ۴) اس آیت میں ہے کہ دو نوں اصلاح کی کوشش کرے تو اصلاح ہو سکتی ہے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تفریق نہیں کر سکتے ، صرف اصلاح کر سکتے ہیں ۔(۲) اس قول تابعی میں بھی ہے ۔سمع الحسن یقول یحکمان فی الاجتماع و لا یحکمان فی الفرقۃ ۔( مصنف عبد الرزاق، باب الحکمین ، ج سادس ، ص۳۸۹، نمبر۱۱۹۲۵؍ سنن بیہقی ، باب الحکمین فی الشقاق بین الزوجین ،ج سابع ، ص ۴۹۸، نمبر۱۴۷۹۳) اس قول تابعی میں ہے کہ حکمین کے ہاتھ میں تفریق کرانا نہیں ہے
نوٹ : یہاں مسئلہ حکمین کا نہیں ہے ، بلکہ قاضی کا ہے کہ تفریق کرا سکتا ہے ، اور قاضی میاں بیوی دو نوں کا اولی الامر ہے ، جو حالات دیکھ کر فیصلہ کریں گے ، اور بعض مرتبہ اس کی سخت ضرورت پڑ جاتی ہے ۔
﴿(۲) شوہر کا حقوق زوجیت ادا نہ کرنا ﴾
یہ دوسرے درجہ درجے کا اسباب فسخ ہے ، شقاق کا سب سے بڑا اثر اسی پر پڑتا ہے ۔ نان نفقہ دے رہا ہے لیکن قدرت کے باوجود حقوق زوجیت ادا نہیں ادا کرتا ہے[وطی نہیں کرتا ہے ] تو اس سے بھی عورت تفریق لے سکتی ہے ، کیونکہ اسی لئے تو نکاح کیا ہے ، کیونکہ کھانا پینا تو کسی طرح بھی حاصل کر سکتی ہے ، حقوق زوجیت کہاں سے حاصل کرے گی ! اس لئے اگر شوہر حق زوجیت ادا نہیں کرتا تو قاضی کے یہاں سے اس پر تفریق لے سکتی ہے۔
وجہ : (۱) اس آیت میں اس کا ثبوت ہے ۔ و لن تستطیعوا أن تعدلوا بین النساء و لو حرصتم و لو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقۃ و ان تصلحوا و تتقوا فان اللہ کان غفوراً رحیما ۔( آیت ۱۲۹، سورۃ النساء۴) اس آیت میں ہے کہ شوہر بیوی کو معلق نہ چھوڑے [ یعنی نہ جماع کرے اور نہ طلاق دے]، بلکہ اس کی اصلاح کرے ، اور میل ملاپ کرکے اصلاح نہیں کر سکتا ہے تو عورت کو جدا کردے۔(۲) اس حدیث میں ہے کہ وطی نہ کر سکنے پر آپ نے خلع کا حکم فرمایا ۔ عن عائشۃ قالت جاء ت امرأۃ رفاعۃ الی النبی ﷺ فقالت کنت عند رفاعۃ فطلقنی فبت طلاقی فتزوجت عبد الرحمن بن الزبیر وانما معہ مثل ھدبۃ الثوب فتبسم رسول اللہ ﷺ فقال أتریدین أن ترجعی الی رفاعۃ ؟لا حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک ۔ (مسلم شریف ، باب لا تحل المطلقۃ ثلاثا لمطلقھا الخ، ص ۴۶۳ ،نمبر ۱۴۳۳؍۳۵۲۶ ) اس حدیث میں ہے کہ جماع کی طاقت نہیں تھی تو آپ ؐ نے تفریق کروائی۔(۳) ایلاء میں چار ماہ تک وطی نہ کرنے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔یہاں بھی وطی نہ کرے تو تفریق کرانے کا حق ہو نا چاہئے [۱] اس آیت میں اس کا ثبوت ہے۔ للذین یؤلون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر فان فاء وا فان اللہ غفور رحیم o وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ (آیت ۲۲۷ ،سورۃ البقرۃ ۲) آیت کی وجہ سے ۔[۲] اثر میں ہے کہ چار ماہ گزرنا ہی طلاق ہے۔قلت لسعید بن جبیر اکان ابن عباس یقول اذا مضت اربعۃ اشھر فھی واحدۃ بائنۃ ولا عدۃ علیھا وتزوج ان شاء ت قال نعم۔ (دار قطنی ، کتاب الطلاق، ج رابع، ص ۳۴ ،نمبر ۴۰۰۳؍ سنن للبیہقی ، ،باب من قال عزم الطلاق انقضاء الاربعۃ الاشھر، ج سابع ،ص ۶۲۱، نمبر ۱۵۲۲۳؍ مصنف عبد الرزاق ، باب الایلاء ، ج سادس، ص ۳۴۳، نمبر ۱۱۶۴۸) اس اثر سے معلوم ہوا کہ چار مہینے گزرنے سے ہی طلاق بائنہ ہوجائے گی ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ چار ماہ تک وطی نہیں کیا تو تفریق کرانے کا حق ہو گا ۔ (۴) جماع کرانا عورت کا اصلی حق ہے۔[۱] اس اثر میں اس کا ثبوت ہے۔ عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن ان امرأۃ جائت عمرؓ فقالت : زوجی رجل صدق یقوم اللیل و یصوم النھار ، و لا أصبر علی ذالک قال فدعاہ فقال لھا من کل أربعۃ أیام یوم ، و فی کل أربع لیال لیلۃ ۔ ( مصنف عبدالرزاق، باب حق المرأۃ علی زوجھا و فی کم تشتاق؟ ، ج سابع، ص ۱۱۷، نمبر ۱۲۶۴۰) اس اثر میں ہے کہ جوان کے لئے ہر چار روز میں عورت کو وطی کرانے کا حق ہے ۔[۲] عن زید بن أسلم قال بلغنی ان عمر ابن الخطاب جائتہ امرأۃ فقالت ان زوجھا لا یصیبھا فأرسل الی زوجھا فجاء فسألہ فقال قد کبرت و ذھبت قوتی فقال عمر أتصیبھا فی کل شہر مرۃ ؟ قال فی اکثر من ذالک قال عمر فی کم ؟ قال أصیبھا فی کل طہر مرۃ قال عمر اذھبی فان فی ذالک ما یکفی المرأۃ ۔ ( مصنف عبدالرزاق، باب حق المرأۃ علی زوجھا و فی کم تشتاق؟ ، ج سابع، ص ۱۱۷، نمبر