دیکر نہیں گیا ہے، اور نہ اس نے نفقہ بھیجا ہے ، نہ یہاں کوئی انتظام کیا ہے ، نہ میں نے معاف کیا ہے۔
(ب) نکاح اور وجوب نفقہ کے ثبوت کے بعد قاضی اس شخص کے پاس حکم بھیجے کہ یا تو خود حاضر ہو کر اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو، یا اس کو بلا لو ( بشرطیکہ عورت کے وہاں جانے میں کوئی خطرہ نہ ہو ) یا وہیں سے انتظام کردو ، ورنہ اس کو طلاق دے دو ، اگر تم نے ان باتوں میں سے کوئی بات نہ کی تو پھر ہم خود تم دونوں میں تفریق کردیں گے ۔
قاضی اپنا یہ حکم دو ثقہ آد میوں کے ذریعہ اس کے پاس بھیجے ، اس طرح کہ حکم نامہ حوالہ کرنے سے پہلے ان کو پڑھ کر سنا دے اور حوالہ کرتے ہوئے کہے کہ غائب شوہر کے پاس لے جاؤاور اس سے جواب طلب کرو ۔ جو کچھ وہ تحریر ی یا زبا نی جواب نفی یا اثبات میں دے اس کو خوب محفوظ رکھنا تاکہ واپس آکر اس پر شہادت دے سکو ، اگر وہ کچھ جواب نہ دے تو اسی کی شہادت دینا ،( زبانی جواب احتیاط کے طور پر لکھ لے تاکہ اس پر شہادت دے سکے ) ۔ اگر غائب ایسی جگہ رہتا ہے جہاں آدمی بھیجنے کا انتظام ممکن نہ ہوتو مجبوری کے وقت ڈاک کے ذریعہ حکم بھیجنا بھی کافی ہے ، اور وہ نہ ہو سکے تو فون کرے ( بشرطیکہ کہ شوہر کی آواز پہچانتا ہو ، اور یہ یقین ہو کہ یہ اسکے شوہر کی آواز ہے)
، یا e mail کرے ، یا فاکس کرے ، اور وہ بھی نہ ہو سکے تو اخبار میں ایک دو باراشتہار دے ۔حاصل یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح شوہر کو اس کا علم ہو کہ میری بیوی نے تفریق کی درخواست دی ہے ، اور اس بارے میں شوہر کا جواب ، اور رجحان معلوم کرے ، اور شکایت کے دفعیہ کا پورا موقع دے ۔اب اگر شوہر نے قاضی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بیوی کے نان نفقہ کی ادائیگی شروع کردی ، یا کسی عزیز و اقارب ، یا اجنبی شخص نے عورت کے نفقہ کی کفالت کرلی تو فبھا، اور اگر یہ تمام حربے ناکام ہو گئے اور عورت کی کفالت کی کوئی صورت نہیں رہی تو قاضی اب سے مزید ایک ماہ یا اپنی صوابدید پر اس سے کچھ زیادہ دن کی مہلت دینے کے بعد عورت کے مطالبہ پر تفریق کردے ، اور یہ تفریق طلاق رجعی قرار پائے گی ، اب عورت عدت گزار کر نکاح کر سکتی ہے ۔ ( مجموعہ قوانین اسلامی،دفعہ ۷۸، ص ۱۹۷؍ حیلہ ناجزہ ، باب حکم زوجہ غائب غیر مفقود ، ص ۷۷)
وجہ : (۱) اس قول صحابی میں اس کا ثبوت ہے۔ نا عبید اللہ بن عمر عن نافع قال کتب عمر الی أمراء الاجناد فیمن غاب عن نساۂ من أھل المدینۃ فامرھمأن یرجعوا الی نسائھم اما ان یفارقوا و اما ان یبعثوا بالنفقۃ فمن فارق منھم فلیبعث بنفقۃ ما ترک ۔ ( مصنف ابن ابی شیبۃ ، من قال علی الغائب نفقۃ فان بعث و الا طلق ، ج رابع، ص ۱۷۵، نمبر ۱۹۰۱۳؍ مصنف عبد الرزاق، باب الرجل یغیب عن امراتہ فلا ینفق علیھا، ج سابع، ص ۷۰، نمبر ۱۲۳۹۴) اس قول صحابی میں ہے کہ نفقہ دے ، یاتفریق کرے۔
اس صورت میں [۱] شقاق ہے ۔[۲] حق زوجیت کی ادائیگی نہیں ہے ۔[۳] نان نفقہ کی ادائیگی نہیں ہے ، اس لئے اس کی اصلاح کی صورت نہ ہو نے پر قاضی تفریق کروا سکتا ہے ، ان سب کے دلائل اوپر گزر چکے ہیں ۔
﴿(۸) اختلاف دارین کی وجہ سے حق زوجیت ادا نہ کر سکنا ﴾
یہاں اختلاف دارین کامطلب یہ نہیں ہے کہ ایک دار الاسلام ہو اور دوسرا دار الحرب ہو ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ دو ملکوں کے درمیان ویزے کا سسٹم ہو ، اور ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے میاں بیوی کا ایک ساتھ گزارنا مشکل ہو،مثلا بیوی برطانیہ کی ہے ، اس کی شادی ہندوستانی لڑکے کے ساتھ ہوئی ، لیکن اب ویزا نہیں مل رہا ہے، اور شوہر طلاق بھی نہیں دیتا ہے اور خلع کے لئے بھی تیار نہیں ہے تو ، تفریق کرانے کی گنجائش ہو گی ۔
وجہ :(۱) نان و نفقہ بھی ادا نہیں ہو رہا ہے ، اور حق زوجیت بھی ادا نہیں ہو رہا ہے ، اس لئے اوپر کے دلائل سے تفریق کی گنجائش ہو گی ۔(۲) اس آیت میں اس کا اشارہ ہے ۔ یا ایھا الذین آمنوا اذا جاء کم المومنات مھاجرات فامتحنوھن اللہ اعلم بایمانھن فان علمتموھن مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار لا ھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن وأتوھم ما انفقوا ولا جناح علیکم ان تنکحوھن اذا اتیتموھن اجورھن ولا تمسکو بعصم الکوافر۔ (آیت ۱۰ ،سورۃ الممتحنۃ ۶۰) اس آیت میں ہے کہ عورت دار الحرب سے ہجرت کرکے دار الاسلام آئے تو اس کو واپس نہ کرے، بلکہ اس سے نکاح کر لے ، یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ میاں بیوی کا نکاح ٹوٹ چکا ہو ، اس آیت کے اشارے سے معلوم ہو تا ہے کہ اختلاف دارین سے نکاح ٹوٹ سکتا ہے ، یا تفریق کروائی جا سکتی ہے ، کیونکہ اب حقوق زوجین ادا نہیں ہو سکتے ۔
﴿(۹) شوہر کا وطی پر قادر نہ ہو نا یعنی عنین ہو نا ﴾
وطی پر قدرت نہ ہو نے کی متعدد صورتیں ہیں [۱] ذکر کٹا ہوا ہے [ مقطوع الذکر ہے ] [۲] آلہ تناسل اتنا چھوٹا ہے کہ اس کے باعث وہ صحبت پر قادر نہیں ہے ۔