بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرض مؤلف
الحمد لللہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علیٰ رسولہ الکریم اما بعد ۔
ایک زمانہ تھا کہ اسلامی حکومت تھی اگر عورت کو شوہر کوئی تکلیف دیتا تو قاضی فورا اس کی داد رسی کرتا اور شوہر سے اس کا حق دلواتا ، نفرت اور لڑائی کے باوجود عورت کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ یہ مجھے جان سے مار دیگا ، یا اتنا پریشان کر دیگا کہ عورت کی زندگی دو بھر ہوجاے گی ، اس لئے شوہر کے گھر میں رہنے میں کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتی ، لیکن اس وقت صورت حال بالکل مختلف ہے ، کہیں بھی ایسا قاضی نظر نہیں آتا جو بر وقت داد رسی کر سکے ، اور عورت کی جان محفوظ رکھ سکے ، اس لئے نفرت کے بعد کوئی گرانٹی نہیں ہے کہ وہ شوہر کے گھر میں سکون سے زندگی گزار سکے گی، اس لئے نفرت کے بعد عورت کو شوہر گھر میں بھیجنا ایک مشکل کام ہے ۔اس لئے تفریق کا فیصلہ نہ بھی کرے تو عورت کو شوہر کے گھر میں بھیجنے کی ذمہ داری کوئی نہیں لے گا ، کیونکہ عورت کوئی نقصان ہوا ا تو اس ذمہ دار کو سالوں کورٹ کا دھکا کھانا پڑے گا۔
1 …… دوسری طرف یورپ میں طرفہ تماشہ یہ ہے کہ human right ( ہرانسان کو خوشی سے جینے کا حق ) ہے اس کے تحت عورتیں حکومت کے ذریعہ سے Restraining order( شوہر کو قریب آنے سے روکنے کا حق)، لے لیتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے چاہے عورت کی غلطی نہ بھی ہو پھر بھی شوہر عورت کے گھر کے قریب بھی نہیں آسکتا ، عورت کے گھر سے 500 پانچ سو میٹر دور دور ہی رہنا ہوگا ، اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرے گا تو حکومت سیدھا جیل میں دھکیل دیگی۔ ایسی صورت میں بیوی کو شوہر کے گھر پر جانے کا فیصلہ کیسے کوئی کر سکتا ہے ۔
2 ……ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے بیوی جج سے اپنے اوپر ہاتھ نہ لگانے کا حق حاصل کر لیتی ہے جسکو Non-Molestation order کہتے ہیں جسکی وجہ سے بیوی رہتے ہوئے بھی شوہر بیوی سے ازدواجی رابطہ نہیں کر سکتا، ایسی خطرناک صورت میں تفریق نہ کریں تو کیا کیا جائے ۔
3…… یہ صورت بھی بنتی ہے کہ بیوی انگریز جج سے Separation (علیحدگی)لے لیتی ہ ہے یا Decree absolute کروا لیتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ حکومت کے یہاں میاں بیوی نہیں رہے ، اور دوبارہ واپس بھی جائے تو بہت مشکل ہے، اکثر مرتبہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عورت کی جان کو خطرہ ہے ، اس لئے رضامندی سے شوہر کے یہاں جانا بھی چاہے تو پولیس جانے نہیں دیتی ، ایسی صورت میں اگر تفریق نہ بھی کرے تو کیا کرے ، کب تک ئی عورت لٹکتی رہے گی ۔
4 ……بارہا یہ دیکھا گیا ہے کہ چاہے شرعی طلاق نہ ہوئی ہو پھر بھی وہ کسی مرد کے ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنے لگتی ہے ، اور زندگی بھر معصیت میں مبتلا رہتی ہے ، اور چونکہ دیندار نہیں ہوتی اس لئے اس کی پرواہ بھی نہیں کرتی ۔
5 ……خاندان والے، یا کوئی آدمی کہہ بھی نہیں سکتا ، کیونکہ حکومت عورت کا ساتھ دیتی ہے ، حکومت کا نظریہ ہے کہ یہ عورت کا ذتی حق ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی زندگی گزارے ، اس میں والدین، یا کوئی دخل انداز نہیں ہوسکتے ، اب عورت دیندار نہیں ، اس کو کوئی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ہے تو تفریق نہ کرے تو آخر کیا کرے!
6 ……پھر یورپ کے میڈیا اور ٹیلی ویزن والے ایسے مسئلے کو بہت اچھالتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ دیکھئے مسلمان عورتوں پر ظلم کر تا ہے ۔ بعض مرتبہ اتنا پیچھا کرتے ہیں کہ اسلام کو بدنام کرکے چھوڑتے ہیں ۔
7 …… یہ بھی ہوتا ہے کہ مثلا انگلینڈ کی عورت نے پاکستان میں شادی کی لیکن حکومت ویزا نہیں دیتی ہے، اور ایسی قانونی خامی ہے کہ آیندہ ویزا دینے کی امید بھی نہیں ہے، اور عورت پاسکتان میں جا کر رہنا نہیں چاہتی ، کیونکہ انگلینڈ میں بڑی سہولت ہے ، اب ایسی صورت میں کب تک عورت گزارہ کرے گی ۔
یورپ کے ان تمام صورت حال کو سامنے رکھ کر یہ کتاب لکھی جا رہی ہے ، تاکہ اس کے ذریعہ میڈیا کی بدنامی سے بھی بچا جائے اور مجبور عورت کو زندگی گزارنے کا سہارا مل جائے ۔
﴿گزارش :﴾
انسان خطا و نسیان کا پتلہ ہے اس کتاب کے لکھنے میں بہت سی غلطیاں ہو سکتیں ہیں اسلئے کرم فرماوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ کوئی غلطی نظر آئے تو ضرور ہمیں مطلع فرمائیں تاکہ اگلے ایڈیشن میں اسکی اصلاح کر لی جائے ۔میں اس سے خوش بھی ہونگاا ور شکر گزار بھی ہوں گا ۔
﴿شکریہ﴾
حضرت مولانا مسلم قاسمی صاحب سینپوری سلمہ نے کتاب کی چھپائی کے وقت نگرانی کی ہے میں ان کا شکر گزار ہوں۔خداوند قدوس ان حضرات کو پورا پورا بدلہ عطا فرمائے۔