Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

71 - 540
معلومة    ١   خلافا لمالک رحمہ اللہ ٢   لأن الباق بعد الاستثناء مجہول. بخلاف ما ذا باع واستثنی نخلا معینا لأن الباق معلوم بالمشاہدة. قال رض اللہ عنہ قالوا ہذہ روایة الحسن وہو قول الطحاو ٣   أما علی ظاہر الروایة ینبغ أن یجوز لأن الأصل أن ما یجوز یراد العقد علیہ 

وجہ: (١) حدیث میں ہے ۔ عن جابربن عبد اللہ قال نھی رسول اللہ ۖ عن المزابنة وعن المحاقلة وعن الثنیا الا ان یعلم۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی المخابرة ،ص ١٢٧ ،نمبر ٣٤٠٥ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی النھی عن الثنیا ،ص ٢٤٢، نمبر ١٢٩٠ مسلم شریف ، باب من باع نخلا علیھا تمر ، ص ٦٧١، نمبر ٣٩١٣) اس حدیث میں ہے کہ حضورۖ نے استثناء کرنے سے منع فرمایا ،مگر استثناء سے مبیع مجہول نہ ہوبلکہ معلوم رہے تو جائز ہے  الا ان یعلم  کا یہی مطلب ہے (٢)  اس قول تابعی میں ہے ۔ اخبرنا معمر عن قتادة فی رجل قال لہ ابیرک ثمر حائطی  بمائة دینار الا خمسین فرقا فکرھہ وقال الا ان یشترط نخلات معلومات ۔ ( مصنف عبد الرزاق، باب بیع الثمرة و یشترط منھا کیلا ، ج ثامن ، ص ٢٠٢، نمبر ١٥٢٢٨) اس قول تابعی میں بھی ہے کہ متعین درخت مستثنی کرے تو ٹھک ہے اور مجہول مستثنی کرے تو مکروہ ہے  
 ترجمہ: ١  خلاف امام مالک  کے ۔ 
 تشریح:  امام مالک  کی رائے ہے کہ استثناء کر کے بیچے تب بھی جائز ہے ، انکی دلیل یہ ہے کہ استثناء معلوم ہو تو بیع جائز ہے اسی طرح استثناء مجہول ہو تب بھی بیع جائز ہو گی ۔
 ترجمہ:  ٢  اس لئے کہ استثناء کے بعد جو باقی ہے وہ مجہول ہے ، بخلاف جبکہ بیچا اور متعین درخت کا استثناء کیا ]تو جائز ہے [ اس لئے کہ باقی مشاہدہ کے ساتھ معلوم ہے ، علماء فرماتے ہیں کہ یہ حضرت حسن  کی روایت ہے اور یہی قول امام طحاوی  کا ہے ۔
 تشریح: استثناء کر نے کے بعد جو پھل باقی رہا وہ مجہول ہے ، اور مجہول مبیع کی بیع جائز نہیں ہے اس لئے یہ بیع جائز نہیں ہو گی ۔ ہاں متعین درخت مستثنی کرے ، مثلا کہے کہ سو درخت بیچتا ہوں اور یہ پانچ درخت نہیں بیچتا تو یہ بیع جائز ہے ، کیونکہ متعین کیا ہوا پانچ درخت مستثنی ہو گئے تو باقی پچانوے درخت بھی متعین ہو گئے اس لئے اب بیع جائز ہو گی ۔۔ علماء نے فرمایا کہ یہ مجہول استثناء کی بیع نا جائز ہے یہ حضرت حسن  کا قول ہے اور یہی قول حضرت امام طحاوی  کا ہے ۔ 
 ترجمہ: ٣   لیکن ظاہر روایت پر مناسب یہ ہے کہ مجہول استثناء کی  بیع جائز ہو ، اس لئے کہ اصل قاعدہ یہ ہے کہ جسکو الگ کر کے بیچنا جائز ہو عقد میں سے اس کو مستثنی کر کے بیچنا بھی جائز ہے ، اور ڈھیر میں سے ایک قفیز کو استثناء کرکے بیچنا جائز ہے ، ایسے ہی ڈھیر میں سے ایک قفیزکو بیچنے سے مستثنی کرنا بھی جائز ہے ۔ 
 تشریح: ظاہر رویت کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یوں کہا  مثلا سو درخت کے پھل کو بیچتا ہوں مگر دو سو کیلو نہیں بیچتا ہوں تو یہ 

Flag Counter