Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

296 - 540
( باب القالة)
 (١٦٧)القالة جائزة ف البیع بمثل الثمن الأول ١ لقولہ علیہ  الصلاة والسلام من أقال نادما 

فاعطاہ رسول اللہ  ۖ سیرین القبطیة ، فولدت لہ عبد الرحمن بن حسان ۔( دلائل النبوة للبیہقی، باب حدیث الافک، ج رابع ، ص ٧٥ ) اس حدیث میں ہے کہ سیرین قبطیہ کو حضرت حسان  کو ہدیہ دیا ، اور ماریة قبطیہ جو انکی بہن تھیں وہ حضور کے پاس تھیں، جس سے معلوم ہوا کہ بڑوں میں تفریق کی ۔ 

(باب الاقالة )
ضروری نوٹ : اقالہ کا مطلب یہ ہے کہ بائع مبیع بیچنے کے بعد نادم ہو جائے کہ میں نے غلط بیچ دیا،پھر مشتری سے کہے کہ مجھے مبیع واپس کردیں اور ثمن واپس لے لیں اور مشتری ایسا کردے تو اس کو اقالہ کہتے ہیں۔ یا مشتری خریدنے پر نادم ہو جائے اور بائع سے کہے کہ مبیع واپس لے لیں اور ثمن دے دیں اور بائع ایسا کرے تو اس کو اقالہ کہتے ہیں۔ایسا کرنا جائز ہے بلکہ افضل ہے۔حدیث میں اس کا ثبوت ہے ۔ عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ من اقال مسلما اقالہ اللہ عثرتہ ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی فضل الاقالة ،ص ٥٠٠، نمبر ٣٤٦٠ ابن ماجہ شریف، باب الاقالة ،ص ٣١٥ ،نمبر ٢١٩٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقالہ کرنا جائز ہے بلکہ سامنے والے کی مجبوری ہو تو اقالہ یعنی مبیع واپس کرنے میں ثواب ملے گا۔
ترجمہ  :(١٦٧) اقالہ جائز ہے بیع میںبائع کے لئے اور مشتری کے لئے ثمن اول کے مثل سے۔ 
ترجمہ  : ١  حضور ۖ کے قول جس نے ندامت کرنے والے کی بیع کا اقالہ کیا تو اللہ تعالی  قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو معاف کردے گا ۔ 
تشریح:  بائع اور مشتری دونوں کے لئے اقالہ جائز ہے۔لیکن جس قیمت میں بیع ہوئی تھی بائع اتنی ہی قیمت واپس کریگا،کم بھی نہیں اور زیادہ بھی نہیں۔بائع نے جتنی قیمت پہلے لی ہے وہی قیمت واپس کرے،اسی کو بمثل الثمن الاول کہا ہے۔ حدیث میں اس کی ترغیب ہے
وجہ : (١)صاحب ہدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ من اقال مسلما اقالہ اللہ عثرتہ ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی فضل الاقالة ،ص ٥٠٠، نمبر ٣٤٦٠ ابن ماجہ شریف، باب الاقالة ،ص ٣١٥ ،نمبر ٢١٩٩) اس حدیث میں اقالہ کی فضلیت ہے۔(٢)بائع اور مشتری کے درمیان کوئی نئی بیع نہیں ہے کہ قیمت زیادہ لے یا کم لے بلکہ اقالہ کا مطلب 

Flag Counter