Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

489 - 540
البائع لی حقہ بدون البیع وفیہ بطال حق المشتر٢  ون لم یدر أین ہو بیع العبد وأوفی الثمن لأن ملک المشتر ظہر بقرارہ فیظہر علی الوجہ الذ أقر بہ مشغولا بحقہ وذا تعذر استیفاؤہ من المشتر یبیعہ القاض فیہ کالراہن ذا مات والمشتر ذا مات مفلسا والمبیع لم 

احری ان یتبین لک القضائ۔ (ابو داؤد شریف، باب کیف القضاء ، ص٥١٤، نمبر ٣٥٨٢) ترمذی شریف ، باب ماجاء فی القاضی لا یقضی بین الخصمین حتی یسمع کلامھما ، ص٣٢٢، نمبر ١٣٣١)اس حدیث میں ہے کہ مدعی علیہ کی بات بھی سنو تب فیصلہ کرو۔اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مدعی علیہ حاضر ہو یا اس کا قائم مقام حاضر ہواور اپنی بات سنا سکے (٤) اس قول تابعی میں ہے کہ غائب پر فیصلہ نہ کرے ۔سمعت شریحا یقول لایقضی علی غائب  (مصنف عبد الرزاق، باب لایقضی علی غائب، ج ثامن ، ص ٢٣٥، نمبر١٥٨٥)  
ترجمہ  : ٢  اور اگر یہ معلوم نہیں ہے کہ مشتری کہاں ہے تو غلام بیچا جائے گا اور  بائع کوپوری قیمت دی جائے گی ، اس لئے کہ بائع کے اقرار سے مشتری کی ملکیت ظاہر ہوئی ہے، پس اس طرح ظاہر جس طرح اپنے حق کے ساتھ مشغول کرکے اقرار کیا ہے ،اور مشتری سے وصول کرنا متعذر ہوگیا تو قاضی قیمت وصول کرنے کے لئے بیچے گا، جیسے رہن پر رکھنے والا مر جائے ، یا مشتری مفلس ہوکر مر جائے اور مبیع پر قبضہ نہ کیا ہو ]تو قاضی مبیع کو بیچے گا[ 
تشریح  : اگر یہ معلوم نہیں ہے کہ مشتری کہاں ہے تو اب قاضی مبیع کے بیچنے کا فیصلہ کریں گے اور اس سے بائع کا ثمن ادا کیا جائے گا ، پس اگر کچھ بچ گیا تو مشتری کے لئے رکھا جائے گا ، اور کم ہوگیا تو مشتری سے وصول کیا جائے گا ، کیونکہ مشتری ہی کے لئے غلام بیچا گیا ہے 
وجہ  : یہاں غائب پر فیصلہ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ غلام کے ساتھ بائع کا حق متعلق ہے ، اگر غلام نہیں بچواتے ہیں تو بائع کو ثمن نہیں ملتا ہے ، اور بائع نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ یہ غلام مشتری کا ہے ، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ میرا ثمن اس کے ساتھ متعلق ہے ، اس لئے غلام کے بیچنے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
 اس کی دو مثالیں دیتے ہیں ]١[ جیسے قرض لینے والا راہن مر گیا اور اس کا غلام قرض دینے والے مرتہن کے پاس ہے تو قاضی اس غلام کو بیچنے کا فیصلہ کرے گا  اور اس سے راہن کا قرض ادا کیا جائے گا ۔]٢[ یا مشتری مفلس ہوکر مر گیا اور ابھی تک مبیع پر قبضہ نہیں کیا تھا تو مبیع کو بیچنے کا فیصلہ کرے گا اور اس کی قیمت سے بائع کا ثمن ادا کیا جائے گا ، حالانکہ یہاں بھی قضا علی الغائب ہے اس لئے کہ مشتری مر چکا ہے ، لیکن چونکہ بائع کا اور قرض دینے والے کا حق غلام کے ساتھ متعلق ہے اس لئے مجبورا قضا علی الغائب کا فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ 

Flag Counter