Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

467 - 540
السلم لم تشترط شیئا فالقول قول المسلم لیہ ١  لأن رب السلم متعنت ف نکارہ الصحة لأن المسلم فیہ یربو علی رأس المال ف العادة ٢ وف عکسہ قالوا یجب أن یکون القول لرب السلم 

سے زیادہ فائدہ مند شمار کیا جاتا ہے ۔ 
لغت  : متعنت: جو آدمی اپنے فائدے کا انکار کرے اس کو متعنت، کہتے ہیں ۔  لان المسلم فیہ یربو علی رأس المال فی العادة :  ربا ، یربو: مال کا زیادہ ہونا ،بڑھنا۔عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ثمن دیکر مبیع لینے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ ثمن سے زیادہ مبیع کار آمد ہے ، تب ہی تو ثمن دیکر مبیع لے رہا ہے ، اب جو مبیع چھوڑ دے تو گویا کہ وہ متعنت ہے ۔
اصول  : یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ جو بیع سلم کی شرائط کے مطابق دعوی کرے ، گواہ نہ ہونے پر اس کی بات مانی جائے گی ۔ 
اصول  : دوسرا اصول یہ ہے کہ بیع سلم میں مبیع کے وصف کو طے کرنا ضروری ہے کہ وہ ردی ہوگی یا اعلی درجے کی ہوگی ، تب بیع درست ہوگی ۔ 
تشریح  : کسی آدمی نے ایک کر میں بیع سلم کی ، پھر بائع نے کہا کہ ردی گیہوں کی شرط تھی اور مشتری کہتا ہے کہ کوئی شرط نہیں تھی اور گواہ کسی کے پاس نہیں ہے تو بائع کی بات مانی جائے گی ۔
وجہ  : (١) پہلے قاعدہ گزرا کہ بیع سلم اس وقت درست ہوگی جبکہ مبیع کی صفت متعین ہو کہ ردی ہوگی یا اعلی ، اور یہاں مشتری کہہ رہا ہے کہ ردی کی صفت طے نہیں تھی تو گویا کہ بیع سلم ہی نہیں ہوئی ۔ اور اس میں نقصان مشتری ہی کا ہے کیونکہ اگر بیع نہیں ہوئی تو اس کو مبیع نہیں ملے گی ، حالانکہ عمومی طور پر مبیع ملنے کو ثمن کے مقابلے پر کار آمد سمجھی جاتی ہے تو مبیع نہ ملنے سے مشتری کا نقصان ہے ، اس لئے وہ متعنت ہے ، اس لئے اس کی بات نہیں مانی جائے گی ۔ (٢) دوسری وجہ یہ ہے کہ بائع کا قول بیع سلم کی شرط کے موافق ہے اس لئے بھی اس کی بات مانی جائے گی۔
 ترجمہ  : ٢  اور اس کے الٹے میں ]یعنی مشتری کہتا ہے کہ ردی کی شرط تھی اور بائع کہتا ہے کہ کوئی شرط طے نہیں تھی [علما فرماتے ہیں کہ مشتری کی بات مانی جائے ، امام ابو حنیفہ  کے نزدیک اس لئے کہ وہ بیع کے صحیح ہونے کا دعوی کر رہا ہے ۔اگر چہ یہ مدعی ہے اور بائع منکر ہے ] اس لئے گواہ نہ ہونے کی صورت میں منکر کی بات ماننی چاہئے [ 
تشریح  : اگر اس کا الٹا ہے، یعنی مشتری کہتا ہے کہ ردی کی شرط تھی ، اور بائع کہتا ہے کہ کوئی شرط طے نہیں تھی تو ایسی صورت میں امام ابو حنیفہ  کے نزدیک مشتری کی بات مانی جائے گی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مشتری کی بات بیع سلم کی شرط کے مطابق ہے اس لئے گویا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ بیع سلم صحیح ہے ، اس لئے اس کی بات مانی جائے گی ۔ اور بائع کی بات ماننے میں بیع سلم درست نہیں ہوتی ہے اس لئے اس کی بات نہیں مانی جائے گا ۔ یوں قاعدے کے اعتبار سے  یہاںبائع کی بات ماننی چاہئے ، کیونکہ 

Flag Counter