Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

454 - 540
یشیع الفساد لأن الفساد طارء ذ السلم وقع صحیحا٢  ولہذا لو نقد رأس المال قبل الافتراق صح لا أنہ یبطل بالافتراق لما بینا٣  وہذا لأن الدین لا یتعین ف البیع ألا تری أنہما لو تبایعا 

مشتری نے کہا کہ میں دو سو درہم کے بدلے میں ایک کر گیہوں کی بیع سلم کرتا ہوں ، اور بیع ہوجانے کے بعد میں ایک سو درہم بائع کے اوپر قرض کا کاٹا ۔اس صورت میں پہلے بیع مطلقا دو سودرہم کے بدلے میں کی ہے ، اور بہت بعد میں قرض کا کاٹا ہے اس لئے بیع سلم صحیح ہوگئی ۔]٢[ دوسری صورت یہ ہے کہ شروع ہی میں مشتری نے کہا کہ ایک سو نقد اور ایک سو قرض کے بدلے میں ایک کر گیہوں خریدتا ہوں ، اس صورت میں قرض کے باوجود اس لئے بیع درست ہوجائے گی کہ قرض متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا وہ مطلق ہی رہتا ہے ، یعنی یوں سمجھا جائے گا کہ مطلق دوسو درہم کے بدلے میں بیع سلم کی ، اس لئے بیع سلم ہوجائے گی۔اور بعد کا فساد پہلے میں سرایت نہیں کرے گا۔       
ترجمہ  : ٢  اسی لئے اگر رأس المال جدا ہونے سے پہلے نقد دے دیا تو بیع صحیح ہوجائے گی لیکن اگر بغیر دئے جدا ہوگئے تو باطل ہوجائے گا ، اس دلیل کی بنا پر جو ہم نے پہلے بیان کیا ہے ۔
تشریح  : یہ بیع سلم صحیح ہونے کا اصول ہے کہ اگر مشتری نے جد اہونے سے پہلے ثمن ادا کردیا تو بیع درست ہوجائے گی ، اور اگر کچھ بھی نہیں دیا تو بیع سلم پوری باطل ہوجائے گی ، کیونکہ مجلس میں ثمن ]رأس المال [پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔
ترجمہ  : ٣  بیع سلم باطل نہیں ہوگی اس لئے کہ بیع میں قرض متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا ، کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ کسی عینی چیز کو قرض کے بدلے میں بیچا پھر بائع اور مشتری نے تصدیق کر لی کہ بائع پر قرض نہیں تھا تب بھی بیع باطل نہیں ہوگی ، اس لئے کہ بیع صحیح منعقد ہوئی ہے ۔ 
 تشریح  : مشتری]رب السلم [ نے کہا کہ دو سودرہم میں ایک سو نقد اور ایک سو قرض کے بدلے میں بیع سلم کرتا ہوں پھر بھی بیع ہوجائے گی ، اس کی دلیل بیان کر رہے ہیں کہ بیع میں قرض کی رقم کو متعین کرے تب بھی وہ متعین نہیں ہوتی ، مطلق ہی رہ جاتی ہے ، اس کی دو مثال دیتے ہیں ]١[ ایک یہ کہ ایک سودر ہم قرض کے بدلے میں مثلا غلام خریدا ، پھر بائع اور مشتری نے تصدیق کرلی کہ بائع پر قرض نہیں تھا پھر بھی بیع درست رہتی ہے ، حالانکہ قرض جب نہیں تھا تو غلام کا ثمن ہی نہیں رہا اس لئے بیع فاسد ہوجانی چاہئے ، لیکن چونکہ قرض متعین نہیں ہے اس لئے مشتری پر کوئی سا بھی ایک سو درہم لازم ہوگا اور بیع باقی رہے گی ، ٹھیک اسی طرح بیع سلم میں شروع میں مطلق دو سو درہم کے بدلے بیع ہوئی اس لئے بیع باقی رہے گی۔ ]٢[ دوسری دلیل یہ ہے کہ سامنے درہم یا دینار ہو اور یہ کہے کہ اس درہم کے بدلے بیع کرتا ہوں تب بھی وہی درہم متعین نہیں ہوتا ، اسی طرح درہم بائع پر قرض ہو تب بھی وہ قرض متعین نہیں ہوتا بلکہ مطلق دو سو درہم لازم ہوتے ہیں اس لئے بیع سلم ہوجائے گی۔

Flag Counter