Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

445 - 540
یعلم قدرہ لا یدر ف کم بق ٤ أو ربما لا یقدر علی تحصیل المسلم فیہ فیحتاج لی رد رأس المال والموہوم ف ہذا العقد کالمتحقق لشرعہ مع المناف ٥   بخلاف ما ذا کان رأس المال ثوبا لأن الذرع وصف فیہ لا یتعلق العقد علی مقدارہ.٦  ومن فروعہ ذا أسلم ف جنسین ولم یبین رأس مال کل واحد منہما أو أسلم جنسین ولم یبین مقدار أحدہما. ٧ ولہما ف الثانیة أن 

واپس کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ]تو اگر معلوم نہ ہو کہ راس المال کتنی ہے تو کتنا واپس کرے گا[اور اس عقد میں وہمی چیز حقیقت کی طرح ہے ، اس لئے کہ منافی کے باوجود یہ بیع مشروع کی گئی ہے ۔
 تشریح  : یہ دوسری دلیل ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلم فیہ ]یعنی مبیع[ نہیں ملتی اس لئے راس المال واپس کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اگر یہی معلوم نہ ہو کہ راس المال کتناہے تو کیا واپس کرے گا ، اس لئے بیع کے وقت راس المال کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے ۔  آگے فرماتے ہیں کہ ،یہ باتیں اگر چہ وہمی ہیں کہ کبھی یہ بات پیش نہ بھی آئے لیکن بیع سلم منافی کے باوجود جائز قرار دی گئی ہے اس لئے وہمی چیز بھی حقیقت کی طرح ہے ، اس لئے مقدار کا معلوم کرنا ضروری ہے۔     
ترجمہ  : ٥  بخلاف اگر راس المال ]ثمن[کپڑا ہو ]تو مقدار متعین کرنے کی ضرورت نہیں ہے[اس لئے کہ گز اس میں وصف ہے جسکی مقدار پر عقد متعلق نہیں ہوتا۔ 
تشریح  : یہ صاحبین  کوجواب ہے ۔راس المال کپڑے کا تھان ہو تو یہ متعین کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کتنا گز ہے ، کیونکہ کپڑے میں گز صفت ہے اور صفت سے عقد کا تعلق نہیں ہوتا اس لئے کپڑے میں مقدار متعین کرنے کی ضرورت نہیں ہے
ترجمہ  : ٦  اس کے فروع میں سے یہ ہے کہ اگر دو جنسوں میں بیع سلم کی اور ہر ایک کا راس المال بیان نہیںکیا، یا دو جنسوں کے راس المال سے سلم کیا، اور دو میںسے ایک جنس کی مقدار بیان نہیں کی]تو اختلاف رہے گا[ 
 تشریح  : ان حضرات کے اصول پر یہ دو مسئلے متفرع ہوں گے ]١[ ایک یہ کہ ایک سو درہم دئے اور ایک من گیہوں ، اور ایک من چاول لینے کی بیع سلم کی اور یہ متعین نہیں کیا کہ گیہوں کی قیمت کیا ہوگی ، اور چاول کی قیمت کیا ہوگی ، تو صاحبین  کے نزدیک بیع ہوجائے گی ، کیونکہ انکے یہاں راس المال کی مقدار متعین کرنا ضروری نہیں ہے ، اور امام ابو حنیفہ  کے نزدیک بیع نہیں ہوگی ، کیونکہ انکے یہاں ہر مبیع کے لئے الگ الگ ثمن کی مقدار متعین کرنا ضروری ہے ۔]٢[ اور دوسرا فروع یہ ہے کہ ایک من گیہوں کے بدلے میں درہم اور دینار دئے ، اور دونوں میں سے ایک کی مقدار متعین نہیں کی تو صاحبین  کے یہاں بیع جائز ہوگی ، کیونکہ انکے یہاں راس المال کی مقدار معلوم کرنا ضروری نہیں ہے اور امام ابو حنیفہ  کے یہاں جائز نہیں ہے کیونکہ ایک کی مقدار معلوم نہیں کی تواس میں جہالت آگئی اور دونوں عقد ایک ہی ہے اس لئے پورے میں جہالت سرایت کرے گی اور پوری بیع ہی فاسد 

Flag Counter