وجہ والمصحح للعتاق الملک الکامل لما روینا٤ ولہذا لا یصح أن یعتق الغاصب ثم یؤد الضمان٥ ولا أن یعتق المشتر والخیار للبائع ثم یجیز البائع ذلک٦ وکذا لا یصح بیع المشتر من الغاصب فیما نحن فیہ مع أنہ أسرع نفاذا حتی نفذ من الغاصب ذا أدی الضمان٧ وکذا لا یصح عتاق المشتر من الغاصب ذا أدی الغاصب الضمان.٨ ولہما أن الملک ثبت
منسوب ہوکر ثابت ہوگی اس لئے من وجہ ملکیت ثابت ہوئی ، اور آزاد کرنے کے لئے کامل ملکیت چاہئے جیسا کہ ہم نے حدیث سے ثابت کیا اس لئے آزاد نہیں ہوگا۔
ترجمہ : ٤ اسی لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ غاصب آزاد کرے پھر ضمان ادا کرے۔
تشریح : یہاں سے چار مثالیں دے رہے ہیں کہ ان میں مشتری من الغاصب کا آزاد کرنا صحیح نہیں اس لئے ہمارے مسئلے میں بھی آزاد کرنا صحیح نہیں ہوگا ]١[ پہلی مثال یہ ہے کہ غاصب خود پہلے آزاد کرے بعد میں اس کا ضمان دے دے تو اس کا آزاد کرنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ آزاد کرتے وقت غلام کا مالک نہیں تھا ، اسی طرح یہاں مشتری کا آزاد کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ مشتری غلام کا مالک نہیں تھا ۔
ترجمہ : ٥ اور یہ بھی جائز نہیں ہے مشتری آزاد کرے اور اختیار بائع کا ہو پھر بائع بیع کی اجازت دے دے ۔
تشریح : ]٢[یہ دوسری مثال ہے ۔بیع میں بائع نے خیار شرط لی تھی اس دوران غلام کو مشتری نے آزاد کر دیا بعد میں بائع نے بیع کی اجازت دی تو آزاد کرنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ آزاد کر تے وقت مشتری غلام کا مالک نہیں تھا۔
ترجمہ : ٦ ایسے ہی مشتری من الغاصب کا بیچنا دوسرے سے صحیح نہیں ہے ، حالانکہ بیع بہت جلدی نافذ ہوتی ہے یہاں تک کہ غاصب کی بیع درست ہوجاتی ہے اگر غاصب ضمان ادا کردے۔
تشریح : ]٣[یہ تیسری مثال ہے ۔ غاصب سے مشتری نے خریدا ، پھر اس مشتری نے کسی اور کے ہاتھ میں بیچا پھر غاصب نے ضمان ادا کیا ، پھر بھی یہ دوسری بیع جائز نہیں ہوگی ، کیونکہ مشتری کے بیچتے وقت نہ غاصب کی ملکیت تھی اور نہ مشتری کی ملکیت تھی ۔ حالانکہ بیع آزاد کرنے سے بھی جلدی نافذ ہوتی ہے ، چنانچہ اگر غاصب نے غلام بیچا پھر اس کا ضمان ادا کردیا تو غاصب کی بیع جائز ہوجاتی ہے ، اس کے باوجود یہاں مشتری من الغاصب کی بیع جائز نہیں ہوگی ، تو مشتری من الغاصب کا آزاد کرنا کیسے جائز ہوگا ۔
ترجمہ : ٧ اسی طرح مشتری من الغاصب کا آزاد کرنا صحیح نہیں ہے اگر بعد میں غاصب ن ضمان ادا کردے ] اسی طرح بعد میں مالک اجازت دے دے تب بھی مشتری کا آزاد کرنا صحیح نہیں ہوگا[