Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

406 - 540
العتاق فالتناقض لا یمنع لاستبداد المولی بہ فصار کالمختلعة تقیم البینة علی الطلقات الثلاث قبل الخلع والمکاتب یقیمہا علی العتاق قبل الکتابة. (٢٢٧)قال ومن ادعی حقا ف دار] معناہ حقا مجہولا[ فصالحہ الذ ف یدہ علی مائة درہم فاستحقت الدار لا ذراعا منہا لم یرجع بشیء ١ لأن للمدع أن یقول دعوا ف ہذا الباق .(٢٢٨) قال ون ادعاہا کلہا فصالحہ علی 

آزاد ہیں اور میں بھی نسلا آزاد ہوں ، اس لئے بعد میں آزادگی کا دعوی کیا ، پس اس کے دعوی میں تناقض تو ہے ، لیکن علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ تناقض معاف ہے ۔  
ترجمہ  : ٩  اور اگر مسئلے کی وضع آزاد کرنے میں ہے تو دعوی میں تناقض مانع نہیں ہے اس لئے کہ آقا خود آزاد کرسکتا ہے ، تو ایسا ہوگیا کہ خلع کرنے والی خلع سے پہلے تین طلاق دینے پر گواہ قائم کرے ، یا مکاتب غلام کتابت سے پہلے آزاد ہونے پر بینہ قائم کرے  
تشریح  : صورت مسئلہ یوں رکھا جائے کہ غلام نے دعوی کیا کہ میں غلام تھا لیکن آقا نے مجھے آزاد کیا ہے ، تو دعوی میں تناقض نہیں ہے کیونکہ آقا جب چاہے غلام کو بتائے بغیر آزاد کرسکتا ہے ، اس لئے جب غلام نے کہا کہ میں غلام ہوں مجھے خرید لو تو اس کو یہی معلوم تھا بعد میں پتہ چلا کہ اس سے پہلے ہی آقا نے مجھے آزاد کیا ہے ، اس لئے بعد میں آزدگی کا دعوی کیا اس لئے اس میں کوئی تناقض نہیں ہے ۔ اس کی دومثالیں دی ہیں ]١[  عورت نے خلع کرایا ، بعد میں دعوی کیا کہ خلع سے پہلے ہی شوہر نے اسے تین طلاقیں دی ہیں، اس میں تناقض نہیں ہے کیونکہ خلع کے وقت اس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کو تین طلاق دی ہیں ۔]٢[ دوسری مثال یہ ہے کہ غلام نے کتابت کیا ، بعد میں دعوی کیا کہ آقا نے کتابت سے پہلے ہی مجھے آزاد کیا تو اس میں تناقض نہیں ہے ، کیونکہ اس کو پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ مجھے آزاد کیا ہے ۔ اسی طرح  غلام کو پتہ ہی نہیں تھا کہ مجھے آزاد کیا ہے اس لئے اس نے کہہ دیا کہ میں غلام ہوں بعد میں پتہ چلا کہ مجھے آزاد کیا ہے اس لئے آزاد ہونے کا دعوی کیا ۔   
ترجمہ  : (٢٢٧) کسی نے کسی گھر میں  مجہول حق ہونے کا دعوی کیا ، پس جسکے قبضے میں وہ گھر تھا اس سے سو درہم کے بدلے صلح کرلیا ، پھر وہ گھر کسی اور کا نکل گیا ، مگر ایک ہاتھ تو یہ دعوی کرنے والے سے کچھ نہیں لے سکے گا ۔ 
ترجمہ  : ١  اس لئے کہ مدعی کے لئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ میرا دعوی اسی باقی ایک ہاتھ میں تھا ۔ 
 تشریح  : مثلا زید کے قبضے میں ایک گھر تھا عمر نے کہا کہ اس میں کچھ میرا بھی حصہ ہے ، یہ متعین نہیں کیا کہ کتنا حصہ اس کا ہے ۔ زید نے سو درہم دیکر عمر سے صلح کرلی ، بعد میں خالد نے ثابت کردیا کہ یہ گھر میرا ہے ، مگر ایک گز میرا نہیں ہے تو زید عمر سے کچھ واپس نہیں لے سکتا ہے کیونکہ عمر یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا حق صرف ایک گز تھا  اور اسی کے بدلے میں ایک سو درہم لیا تھا۔
 
Flag Counter