Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

374 - 540
وأب یوسف ٢  وقال محمد لا یجوز لأن الثمنیة تثبت باصطلاح الکل فلا تبطل باصطلاحہما وذا بقیت أثمانا لا تتعین فصار کما ذا کانا بغیر أعیانہما وکبیع الدرہم بالدرہمین.٣  ولہما أن الثمنیة ف حقہما تثبت باصطلاحہما ذ لا ولایة للغیر علیہما فتبطل باصطلاحہما وذا 

علی الھجرة و لم یشعر أنہ عبد فجاء سیدہ یریدہ فقال لہ النبی  ۖ بعنیہ فاشتراہ بعبدین اسودین۔ ( مسلم شریف ، باب جواز بیع الحیوان بالحیوان من جنسہ متفاضلا، ص ٧٠١، نمبر ٤١١٣١٦٠٢) اس حدیث میں ایک غلام کو دو غلاموں کے بدلے میں خریدا ۔(٣) ایک جنس کی چیز ہو چاہے عددی تو ادھار بیچنا جائز نہیں ہے اس کے لئے یہ حدیث ہے ۔عن سمرة بن جندب عن النبی ۖ انہ نھی عن بیع الحیوان بالحیوان نسیئة۔ (سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی النھی عن بیع الحیوان بالحیوان نسیئة ،ج خامس، ص ٤٧٢، نمبر١٠٥٣٢) اس حدیث میں عددی چیزوں کی جنس ایک ہو تو ادھار بیچنا حرام قرار دیا۔ 
ترجمہ  : ٢   امام محمد  نے فرمایا کہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ ثمن ہونا تمام لوگوں کی اصطلاح سے ثابت ہوئی ہے اس لئے بائع اورمشتری کی اصطلاح سے باطل نہیں ہوگا اور جب ثمن باقی ہے جو متعین نہیں ہوسکتا ہے، تو ایسا ہوا کہ دونوں متعین ہی نہ ہوں ، اور جیسے ایک درہم کو دو درہم کے بدلے بیچنا ناجائز ہے ۔ 
اصول :  امام محمد  کا اصول یہ ہے کہ بائع اور مشتری فلوس کی ثمنیت ختم نہیں کرسکتے ۔
تشریح  : امام محمد  نے فرمایا کہ ایک فلوس کو دو فلوس کے بدلے بیچنا جائز نہیں ہے ، اس کی تین دلیلیں دے رہے ہیں ]١[  لوگوں نے اس کو ثمن قرار دیا ہے اس لئے بائع اور مشتری کے ساقط کرنے سے ثمنیت ساقط نہیں ہوگی ]٢[ پس جس طرح ایک درہم کو دو درہم کے بدلے بیچنا جائز نہیں ہے اسی طرح ایک فلوس کو دو فلوس کے بدلے بیچنا جائز نہیں ہے ۔]٣[ تیسری بات یہ ہے کہ جب یہ ثمن ہے تو متعین کرنے کے باوجود متعین نہیں ہوئے، اور آگے خود بیان کر رہے ہیں کہ متعین نہ ہوں تو ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ ہوجائے گی ]بیع الکالی بالکالی[ جو جائز نہیں ہے ۔    
ترجمہ  : ٣  امام ابو حنیفہ  اور امام ابو یوسف  کی دلیل یہ ہے کہ فلوس کی ثمنیت بائع اور مشتری کے حق میں ان دونوں کے ماننے سے ہوگی کیوکہ لوگوں کا ان دونوں پر ولایت نہیں ہے ، اس لئے دونوں کے نہ ماننے سے ثمنت باطل ہوجائے گی اور متعین کرنے سے متعین ہوجائے گا ، اور دوبارہ وزنی نہیں ہوگا ، کیونکہ عددی ہونے کی اصطلاح باقی ہے ، اس لئے عددی کو توڑنے میں عقد کا فساد ہے تو ایسا ہوگیا کہ ایک اخروٹ کو دو اخروٹ کے بدلے میں بیچا۔  
تشریح  : شیخین کی دلیل یہ ہے کہ اور لوگوں کا بائع اور مشتری پر ولایت نہیں ہے اس لئے یہ دونوں فلوس کی ثمنیت ختم کرے 

Flag Counter