Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

37 - 540
ذا باعہ بخلاف جنسہ لقولہ علیہ الصلاة والسلام ذا اختلف النوعان فبیعوا کیف شئتم بعد أن یکون یدا بید بخلاف ما ذا باعہ بجنسہ مجازفة لما فیہ من احتمال الربا  ٢   ولأن الجہالة غیر 

اور سود ہو جائے اس لئے اس کو برابر سرابر کرکے بیچنا ضروری ہے ۔
وجہ:  (١) جب اٹکل سے بیچنا جائز ہے تو اس طرح بھی بیچنا جائز ہوگا(٢) اٹکل سے بیچنے کی حدیث یہ ہے ۔ ان ابن عمر قال لقد رایت الناس فی عھد رسول اللہ ۖ یبتاعون جزافا یعنی الطعام یضربون ان یبیعوا فی مکانھم حتی یؤوہ الی رحالھم ۔ (بخاری شریف ، باب من رای اذا اشتری طعاما جزافا ان لایبیعہ حتی یؤویہ الی رحلہ ،ص ٣٤٣، نمبر ٢١٣٧ مسلم شریف ، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض ، ص ٦٦٣، نمبر ٣٨٤٧١٥٢٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اٹکل سے کھانا اور غلہ بیچنا جائز ہے اور اس وقت اٹکل سے نہیں بیچتے تھے جب تک کجاوے تک غلہ نہ آجائے اس سے معلوم ہوا کہ غلہ سامنے موجود ہو تب ہی اٹکل سے بیچ سکتا ہے۔(٣)اور سامنے موجود نہ ہو تو اس کی مقدار اور صفت کا متعین ہونا ضروری ہے ۔  حدیث میں ہے۔   عن ابن عباس قال قدم النبی ۖ المدینة وھم یسلفون بالثمر السنتین والثلاث فقال من اسلف فی شیء ففی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم ۔(بخاری شریف ، باب السلم فی وزن معلوم، ص ٣٥٧ ،نمبر ٢٢٤٠مسلم شریف،باب السلم ، ص ٧٠١، نمبر ١٦٠٤ ٤١١٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو بیع یا ثمن سامنے موجود نہ ہو اس کا کیل یا وزن اور مدت معلوم ہو تب بیچنا خریدنا جائز ہوگا ورنہ نہیں۔
لغت:  مکایلة  : کیل کرکے۔ مجازفة  :  اٹکل سے۔ طعام :  کھانا، یہاں گیہوں مراد ہے ، کیونکہ  عرب کے نزدیک  گیہوں کو کھانا اور طعام کہا کرتے تھے۔ حبوب ، گیہوں کے علاوہ دانہ اور غلہ ۔ 
ترجمہ:  ١   یہ بیع کا جواز اس وقت ہے جبکہ جنس کے خلاف سے بیچا ہو، حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ اگر نوع مختلف ہو تو جیسا چاہو بیچو ، اس کے بعد کہ ہاتھوں ہاتھ ہو ، بخلاف جبکہ اسی کی جنس سے اٹکل سے بیچا ہو اس لئے کہ اس میں سود کا احتمال ہے  
تشریح:  متن میں جو کہا کہ اٹکل سے بیچنا جائز ہے وہ اس صورت میں ہے کہ خلاف جنس سے بیچے ، مثلا گیہوں کو چنے کے بدلے میں بیچے ، لیکن اگر ایک جنس سے بیچے ، مثلا گیہوں کو گیہوں کے بدلے میں بیچے تو اٹکل سے بیچنا جائز نہیں ہو گا ، بلکہ کیل کر کے بیچنا ضروری ہو گا کیونکہ اٹکل سے بیچے گا تو  ہو سکتا ہے کہ کم بیش ہو جائے ، اور ایک جنس کی چیز میں کم بیش ہو جائے تو ربو اور سود ہے اس لئے ایک جنس کی چیز میں اٹکل سے بیچنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ ایک جنس کی چیز ہو تو برابر کرکے بیچنا جائز ہے ، البتہ جنس مختلف ہو تو کم بیش کر کے جائز ہے بشرطیکہ ہاتھوں ہاتھ ہو ، ادھار نہ ہو ۔    
وجہ :(١) اس کے لئے حدیث یہ جسکو صاحب ہدایہ نے پیش کی ہے ۔عن عبادة بن صامت  قال قال رسول اللہ 

Flag Counter