Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

34 - 540
طعاما لی أجل معلوم ورہنہ درعہ. ٢  ولا بد أن یکون الأجل معلوما لأن الجہالة فیہ مانعة من التسلیم الواجب بالعقد فہذا یطالبہ بہ ف قریب المدة وہذا یسلمہ ف بعیدہا.(٨) قال ومن أطلق الثمن ف البیع کان علی غالب نقد البلد  ١  لأنہ المتعارف وفیہ التحر للجواز فیصرف 

ہے۔   عن ابن عباس قال قدم النبی ۖ المدینة وھم یسلفون بالثمر السنتین والثلاث فقال من اسلف فی شیء ففی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم ۔(بخاری شریف ، باب السلم فی وزن معلوم، ص ٣٥٧ ،نمبر ٢٢٤٠مسلم شریف،باب السلم، ص ٧٠١، نمبر ١٦٠٤ ٤١١٨)  اس حدیث میں ہے کہ ثمن ادھار ہو تو وقت متعین ہو ، بلکہ ثمن کی صفت اور اس کی مقدار بھی معلوم ہو تب جائز ہو گا۔
اصول : دھوکہ نہ ہو اس لئے ثمن ادا کرنے کی تاریخ متعین ہونا ضروری ہے۔  
نوٹ:  اگر تاریخ متعین نہیں کی اور بعد میں جھگڑا بھی نہیں ہوا تو بیع جائز ہو جائے گی۔اوپر کی حدیث میں اس کا اشارہ موجود ہے۔ حضور ۖ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے لوگ بغیر تاریخ متعین کئے بھی بیع کر لیا کرتے تھے ، اور آپ ۖ نے اس کو جائز رکھا تھا  اس لئے مبیع اور ثمن قبضہ ہونے تک جھگڑا نہیں ہوا تو بیع پلٹ کر جائز ہو جائے گی ۔  
لغت : مؤجل  :  مؤخر۔  الاجل  :  مدت۔
ترجمہ:  ٢  ضروری ہے کہ تاریخ معلوم ہو اس لئے کہ عقد کے ذریعہ جو سپرد کرنا واجب ہوا ہے تاریخ کی جہالت اس کو روکتا ہے ، اس لئے کہ بائع ثمن کو قریب مدت میں مطالبہ کرے گا اور مشتری اس کو دیر میں سپرد کرے گا ۔ 
 تشریح:  ثمن کس دن  دے گا اس کا تعین ہونا ضروری ہے ، کیونکہ تاریخ مجہول ہو تو ثمن کس دن دے گا اس میں جھگڑا ہو جائے گا ، بائع جلدی طلب کرے گا اور مشتری دیر سے ادا کرے گا ، اس لئے ثمن ادھار ہو تو تاریخ کا متعین ہونا ضروری ہے ۔ اس کے لئے حدیث اوپر گزر چکی ہے ۔ 
ترجمہ: (٨)  جس نے بیع میں ثمن مطلق رکھا تو وہ شہر کے غالب نقد پر ہوگا۔
ترجمہ:  ١  اس لئے کہ  غالب نقد ہی متعارف ہے ] اس لئے وہی متعین ہو گا[
 تشریح:  شہر میں کئی قسم کے سکے رائج ہوں اور بیع کرتے وقت کسی ایک کو متعین نہیں کیا تو اگر کسی ایک سکے کا رواج زیادہ ہو تو وہی سکہ مراد ہوگا۔
 وجہ:(١) کیونکہ جس سکے کا رواج زیادہ ہوتا ہے بیع کرتے وقت دونوں کا ذہن اسی طرف جاتا ہے۔ اس لئے وہی مراد ہوگا اور بیع جائز ہو جائے گی۔

Flag Counter