Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

33 - 540
ہذہ صفتہا تمنع الجواز ہذا ہو الأصل(٧) قال ویجوز البیع بثمن حال ومؤجل ذا کان الأجل معلوما   ١ لطلاق قولہ تعالی وأحل اللہ البیع وعنہ علیہ الصلاة والسلام أنہ اشتری من یہود 

دھوکہ ہو وہ جائز نہیں۔(٥) چیز معلوم نہ ہو تو اس کی بیع جائز نہیں اس کی دلیل یہ حدیث ہے  ۔عن عبد اللہ عن رسول اللہ ۖ انہ نھی عن بیع حبل الحبلة ۔ (مسلم شریف ، باب تحریم بیع حبل الحبلة ،ص ٦٥٨ نمبر ٣٨٠٩١٥١٤ بخاری شریف ، باب بیع الغرر وحبل الحبلة، ص٣٤٤، نمبر ٢١٤٣) اس حدیث میں حاملہ جانور کے اندر کا بچہ دیکھا نہیں جا سکتا ۔اس کی صفت مجہول ہے اور مقدار بھی معلوم نہیں ہے اس لئے اس کو بیچنا ناجائز قرار دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس غائب کی مقدار اور صفت معلوم نہ ہو اس کو بیچنا یا اس سے کوئی چیز خریدنا جائز نہیں۔   
اصول : غائب ثمن کی مقدار اور صفت بیان کرنا ضروری ہے (٢) دھوکے کی چیز نہ مبیع بن سکتی ہے اور نہ ثمن۔  
لغت:  الاثمان المطلقة  :  جو ثمن غائب ہو یا اس کی مقدار اور صفت معلوم نہ ہو۔  القدر  :  مقدار مثلا کتنے کیلو ہیں۔ التسلیم :  سپرد کرنا ، دینا۔التسلم : کسی سے کوئی چیز لینا۔مفضیة: پہونچانے والی ہو ۔منازعة: جھگڑا، اختلاف۔
ترجمہ:(٧) بیع نقد ثمن سے بھی جائز ہے اور ادھار ثمن سے بھی جائز ہے جبکہ تاریخ متعین ہو۔ 
ترجمہ:  ١   اللہ تعالی کا قول٫ احل اللہ البیع، کے مطلق ہونے کی وجہ سے ، اور حضور ۖ سے منقول ہے کہ آپ نے ایک یہودی سے ایک متعین وقت کے لئے گیہوں خریدا اور اسکے بدلے میں ذرہ رہن پر رکھا۔ 
 تشریح:  مبیع کی قیمت ابھی ادا کرے وہ بھی جائز ہے اور بعد میں ادا کرے اور مبیع ادھار لے لے وہ بھی جائز ہے ، البتہ ادھار لینے کی شکل میں ثمن کے ادا کرنے کے لئے وقت کا متعین ضروری ہے۔ ، کیونکہ وقت متعین نہ ہو تو بائع جلدی مانگے گا اور مشتری دیر کرے گا جس سے جھگڑا ہو گا ، اس لئے ثمن دینے کے لئے وقت متعین ہونا ضروری ہے ۔ 
وجہ :(١) ثمن ادا کرنے کی تاریخ متعین نہ ہو تو مشتری ثمن ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے گااور جھگڑا کرے گا۔اس لئے بیع کے وقت ہی ثمن دینے کی تاریخ متعین کرلے (٢) دونوں طرح اس لئے جائز ہے کہ آیت میں مطلق بیع کرنے کے لئے کہا ہے۔ صاحب ہدایہ کی پیش کردہ آیت یہ ہے۔  احل اللہ البیع وحرم الربوا (آیت ٢٧٥ ،سورة البقرة٢) اس میں ادھار اور نقد کی قید نہیں لگائی ہے اس لئے نقد اور ادھار دونوں طرح سے بیع جائز ہوگی (٣) ادھار ثمن سے بیع کرنے کی دلیل اس حدیث میں ہے ۔ عن عائشة ان النبی اشتری طعاما من یھودی الی اجل ورھنہ درعا من حدید ۔ (بخاری شریف ، باب شراء النبی ۖ بالنسیة، ص ٣٣٢، نمبر ٢٠٦٨ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الرخصة فی الشراء الی اجل ،ص ٢٣٠ ،نمبر ١٢١٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ادھار ثمن کے ساتھ مبیع خرید سکتا ہے۔ (٤)مدت متعین ہو اس کی دلیل  یہ حدیث 

Flag Counter