Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

325 - 540
الثان فیعتبر الثمن الأول.(١٨٢) قال وذا کان مع المضارب عشرة دراہم بالنصف فاشتری ثوبا بعشرة وباعہ من رب المال بخمسة عشر فنہ یبیعہ مرابحة باثن عشر ونصف١  لأن ہذا البیع ون قض بجوازہ عندنا عند عدم الربح خلافا لزفر رحمہ اللہ مع أنہ اشتری مالہ بمالہ لما فیہ من استفادة ولایة التصرف وہو مقصود والانعقاد یتبع الفائدة ففیہ شبہة العدم٢  ألا تری أنہ 

غلام نے یا آقا نے دس درہم میں خریدا ہے اسی پر مرابحہ کرنے ، یا تولیہ کرنے کا حکم کیا گیا۔ 
لغت  : لجوازہ مع المنافی : اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ غلام کا مال آقا کا مال ہے اس لئے انکے درمیان بیع نہیں ہوگی ، لیکن چونکہ غلام کی گردن قرض میں گھری ہوئی ہے ، اس لئے منافی کے باوجود بیع جائز قرار دے دی گئی ۔
 ترجمہ  :( ١٨٢) اگر مضارب کو دس درہم دیا آدھے نفع پر ، پھر اس نے دس درہم کا کپڑا خریدا ، اور مال والے سے پندرہ درہم میں بیچ دیا تو مال والا ساڑھے بارہ پر مرابحہ کرے گا ۔
لغت: رب المال : تجارت میں جس کی رقم ہے ، وہ رب المال ، ہے ۔ مضارب :  جو آدمی تجارت میں محنت کرے گا اسکو ٫ مضارب ، کہتے ہیں ۔بیع مضارت : ایک کی رقم ہو اور دوسرا آدمی تجارت کی محنت کرے ، اور نفع میں دونوں شریک ہوں، ربح : نفع    
تشریح  :  زید نے مضاربت کے طور پر عمر کو دس درہم دیا ، اور نفع میں دونوں آدھا آدھا کیا ۔ اب عمر نے دس درہم کا کپڑا خریدا اور زید ]رب المال [کے ہاتھ میں پندرہ درہم میں بیچ دیا ، اور دونوں نے ڈھائی ڈھائی درہم نفع کمایا ، تو اب زید کسی اور سے مرابحہ کرنا چاہے تو یوں کہے گا ، مجھے ساڑھے بارہ میں پڑا ہے ، اس لئے اس پر دو درہم نفع لیکر ساڑھے چودہ میں بیچتا ہوں ۔یعنی ساڑھے پر مرابحہ کر سکتا ہے ، پندرہ پر نہیں ۔
وجہ  :  زید کو ڈھائی درہم نفع کا مل گیا تو وہ کپڑا ساڑھے بارہ ہی کا پڑا ہے اور مرابحہ کا معاملہ احتیاط پر ہے اس لئے ساڑھے بارہ پر مرابحہ کرے ۔ 
ترجمہ  : ١  اس لئے کہ یہ بیع نفع نہ ہوتے وقت اگر چہ ہمارے نزدیک جائز ہونے کا فیصلہ ہے] خلاف امام زفر  کے [اس لئے کہ اپنے مال کو مال کے بدلے میں خریدا ہے ، اس لئے کہ ولایت تصرف کا فائدہ ہے اور وہی مقصود ہے اور بیع کا منعقد ہونا فائدے کے لئے ہے پس اس میں بیع نہ ہونے کا شبہ ہے ۔ 
لغت  : و ان قضی بجوازہ عند عدم الربح : زید کا مال تھا اور عمر تجارت میں محنت کرنے والا مضارب تھا ، اور اس مال سے کوئی نفع نہیں کمایا تھا کہ عمر کا بھی کچھ مال ہوجاتا ،اب عمر سے زید نے کپڑا خریدا تو گویا کہ اپنا ہی کپڑا عمر سے لیا ، اس لئے بعض حضرات نے اس بیع کو جائز قرار نہیں دیا ۔ ہاں اگر مضاربت میں نفع ہو چکا ہے ، تو نفع کا کچھ حصہ عمر مضارب کا ہو چکا ہے ، 

Flag Counter