Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

31 - 540
فیحمل علیہ والتفرق فیہ تفرق الأقوال.(٥) قال والأعواض المشار لیہا لا یحتاج لی معرفة 

قبول کرنے سے پہلے ایجاب کرنے والے کو اپنی بات واپس لینے کا اختیار ہے ۔  ]٢[ اور قبول کر لینے کے بعد اور بیع تام ہونے کے بعد جب تک مجلس رہے اس وقت تک دونوں کو بیع کو توڑنے کا حق ہو اسکو خیار مجلس کہتے ہیں ، اسی کو تفرق بالابدان کہتے ہیں  
ترجمہ:  ٤  یا خیار قبول کا احتمال رکھتا ہے اس لئے اس پر حمل کیا جائے گا ۔ 
تشریح: حدیث میں ٫ ماللم یتفرقا، کا دو مطلب ہے]١[ ایک تفرق بالاقوال، یعنی ایجاب کے بعد قبول کا اختیار ،]٢[ اور دوسرا تفرق بالابدان ، یعنی مجلس میں اپنی بات واپس لینے کا اختیار ۔ اور حدیث ان دونوں مطلبوں کا احتمال ر کھتی ہے، اس لئے دوسرے کا حق باطل نہ ہو اس لئے تفرق بالاقوال پر حمل کرنا زیادہ بہتر ہے ۔ 
ترجمہ:  اور حدیث میں تفرق سے تفرق بالاقوال مراد ہے۔ 
تشریح: اوپر حدیث میں ٫ مالم یتفرقا ، سے تفرق بالاقوال مراد ہے ۔ یعنی ایجاب کرنے کے بعد قبول کرنے کو تفرق بالاقوال ، کہتے ہیں حدیث میں یہی مراد ہے ۔
ترجمہ:(٥)بدلے کی چیز جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو بیع کے جائز ہونے میں اس کی مقدار پہچاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ 
 ترجمہ:  ١   اس لئے کہ اشارے سے تعرف کرنا کافی ہے اور اس میں وصف کی جہالت جھگڑے کی طرف نہیں پہنچاتی ہے۔  
تشریح:  الاعواض سے مراد ہے مبیع یا ثمن جو بدلے میں دیئے جاتے ہیں۔اگر مبیع یا ثمن سامنے موجود ہو اور بیع کے وقت اس کی طرف اشارہ کر دیا ہو تو اس کی مقدار کتنی ہے ،کتنے کیلو ہے یا کتنی تعداد ہے، یا اس مبیع کی یا ثمن کی صفت کیا ہے، اعلی ہے یا ادنی ہے، بیع کے جائز ہونے میں اس کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے متعین کئے بغیر بھی بیع جائز ہو جائے گی۔  
وجہ: (١) پچھلے زمانے میں کوئی چیز سامنے ہو تو اس کی مقدار جانے بغیر بیع کر لیا کرتے تھے۔کیونکہ مشتری اس کو اسی حال میں خریدنے کے لئے راضی ہے ۔اور جہاں تک اچھا یا خراب ہونے کی بات ہے تو مشتری خود اس کو آنکھوں سے دیکھ کر خرید رہا ہے اور اس پر راضی ہے ۔اس لئے بیع ہو جائے گی  (٢)حدیث میں ہے۔  سمعت ابا ھریرة یقول قال رسول اللہ ۖ لا یفترقن اثنان الا عن تراض ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی خیار المتبایعین، ج ثانی ص ١٣٣ نمبر ٣٤٥٨) معلوم ہوا کہ چیز سامنے ہو اور رضامندی سے خرید رہا ہو تو بیع جائز ہے۔اٹکل سے بیع بیچنے کی دلیل حدیث میں ہے۔  ان ابن عمر قال رایت الناس فی عھد رسول اللہ ۖ یبتاعون جزافا یعنی الطعام ۔ (بخاری شریف ، باب من رای اذا اشتری طعاما جزافا، ص ٢٨٦، نمبر ٢١٣٧ مسلم شریف ، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ص٦٦٣، نمبر ٣٨٤٧١٥٢٧)اس
Flag Counter