Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

304 - 540
مبادلة المال بالمال بالتراض . وہذا ہو حد البیع ولہذا یبطل بہلاک السلعة ویرد بالعیب وتثبت بہ الشفعة وہذہ أحکام البیع. ٦ ولأب حنیفة رحمہ اللہ أن اللفظ ینبٔ عن الرفع والفسخ کما قلنا والأصل عمال الألفاظ ف مقتضیاتہا الحقیقیة ولا یحتمل ابتداء العقد لیحمل علیہ 

لغت : عثرتی :  عثر : گرنا ، مراد ہے لغزش ، اور گناہ ۔فیوفر علیہ قضیتہ: اس کے قضیئے کو اس پر خوب ڈالا جائے گا ، مطلب یہ ہے کہ لفظ کا جو اصلی معنی ہے پہلے اسی پر محمول کیا جائے گا۔یعنی اقالہ کو فسخ پر محمول کیا جائے گا۔محتملہ : لفظ کے اور جو احتمال ہے اس پر حمل کیا جائے گا ، یعنی بیع پر حمل کیا جائے گا ۔ 
ترجمہ  : ٥  امام ابو یوسف  کی دلیل یہ ہے کہ اقالہ میں رضامندی کے ساتھ مال کو  مال سے بدلنا ہے ، اور یہی تعریف بیع کی ہے ] اس لئے وہ بیع جدید ہوگی [ یہی وجہ ہے کہ مبیع ہلاک ہونے پر اقالہ ختم ہوجاتا ہے ، مبیع میں عیب ہو تو مشتری پر واپس لوٹتی ہے، اس میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے ، اور یہ تینوں احکام بیع کے ہیں ۔
تشریح  :  امام ابو یوسف  کی دلیل یہ ہے کہ اقالہ میں مشتری کا قبضہ ہو چکا ہے اور بائع اور مشتری کی رضامندی سے مبیع دیکر ثمن لیا جا رہا ہے ، اور اسی کا نام بیع ہے ، اس لئے یہ بیع جدید ہوگی ۔ یعنی کہ اقالہ پر بیع کی تعریف صادق آتی ہے ۔
وجہ  : اس کی تین علامتیں بیان کر رہے ہیں(١)  اگر مشتری سے مبیع ہلاک ہوجائے تو اقالہ نہیں ہوگا ، جیسے بائع سے مبیع ہلاک ہوجائے تو بیع نہیں ہوگی ، اس لئے اقالہ بیع کی طرح ہے (٢) دوسری علامت یہ ہے کہ اقالہ کی مبیع میں عیب نکل آئے تو یہاں مشتری پر واپس لوٹ جائے گی ، جیسے بیع کے مبیع میں عیب ہو نکل آئے تو بائع پر واپس لوٹا دی جاتی ہے ۔(٣) اقالہ میں بھی شفیع کو حق شفعہ ملتا ہے جیسے بیع میں شفیع کو حق شفعہ ملتا ہے ،  ان تینوں علامتوں سے ثابت ہوا کہ اقالہ بیع ہے ۔ 
لغت : حد : تعریف ، منطق میں کسی چیز کی حد بیان کرنا ۔ سلعة : مبیع کا سامان ۔   
ترجمہ  :٦   امام ابو حنیفہ  کی دلیل یہ ہے کہ لفظ اقالہ کا ترجمہ فسخ کرنا اور اٹھانا ہے ، جیسے کہ پہلے بیان کیا ، اور اصل یہ ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی مقتضی کاعمل دیا جائے۔ اور لفظ اقالہ ابتداء عقد کا احتمال نہیں رکھتا کہ فسخ کے متعذر ہوتے وقت اس پر حمل کیا جائے ، اس لئے کہ وہ اس کی ضد ہے ، اور لفظ ضد کا احتمال نہیں رکھتا ، اس لئے اقالہ باطل ہونا متعین ہوگیا ۔ 
تشریح  : یہ امام ابو حنیفہ  کی دلیل ہے کہ لفظ اقالہ کا ترجمہ فسخ اور اٹھانا ہے ،اور قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کا جو ترجمہ ہے اس کے اصلی مقتضی پر محمول کیا جائے گا اس لئے اقالہ کا مطلب فسخ ہی ہوگا ۔ اور ابتداء عقد] یعنی بیع جدید [ پر اس لئے حمل نہیں کیا جائے گا کہ یہ تو اس کی ضد ہے ، اس لئے جہاں فسخ نہیں بن سکتا ہو وہاں اقال باطل ہوجائے گا ۔     
ترجمہ  : ٧  اور تیسرے کے حق میں بیع ہونا مجبوری کی وجہ سے ہے ، اس لئے کہ اقالہ سے بیع کے حکم کے مثل ثابت ہوتا ، 

Flag Counter