Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

298 - 540
اقالہ جائز نہیں ہے  
وجہ  :  (١)  کمی اور زیادتی کے ساتھ اس لئے جائز نہیں ہے کہ یہ سود ہوجائے گا ۔ اور دوسری جنس مثلا گیہوں کے ساتھ بیع اس لئے جائز نہیں ہے کہ یہ پہلا والا ثمن نہیں ہے اس لئے سود کا شبہ ہے ۔ اسی طرح مبیع میں اضافہ  ہوجائے تو سود کا شبہ ہے اس لئے بھی اقالہ جائز نہیں ہے ۔
 (٢)صاحب ہدایہ نے جو دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ اقالہ کا معنی ہے ٫بیع کو توڑنا ،اس لئے بیع ہونے کے معنی میں استعمال نہیں ہوگا ، اس لئے بیع جدید نہیں ہوگی ۔
شفیع کے حق میں اس لئے بیع جدید ہوگی ، کہ اس میں سود کا شائبہ نہیں ہے ، اور یہ زمین دوبارہ بائع کے پاس جانے سے ہو سکتا ہے کہ اس کو نقصان ہو اس لئے اس کو حق شفعہ دیا جائے گا ۔
امام ابو یوسف   کا اصول یہ ہے کہ: کمی کے ساتھ اور زیادتی کے ساتھ اقالہ جائز ہے ، اور خلاف جنس ، مثلا گیہوں سے اقالہ کرے یہ بھی جائز ہے ، اسی کو کہتے ہیں کہ ہرحال میں بیع جدید ہے۔
وجہ  : مشتری کا مبیع پر اور بائع کا ثمن قبضہ ہو چکا ہے ، اس لئے پہلی بیع مکمل ہوچکی ہے ، اس لئے اب جو اقالہ کر رہا ہے تو گویا کہ یہ نئی بیع ہے ، اس لئے کمی ، زیادتی کے ساتھ بھی جائز ہے، اور خلاف جنس مثلا گیہوں سے بھی جائز ہے ۔   
امام محمد   کا اصول یہ ہے کہ بائع ثمن زیادہ لیکر اقالہ کرے تو جائز ہے ، لیکن کم لیکر اقالہ کرے تو جائز نہیں۔
 وجہ :(١)کیونکہ زیادہ لینے میں بائع کی مجبوری نہیں ہے ، لیکن کم لیکر اقالہ کرنے میں بائع کی مجبوری سے مشتری فائدہ اٹھا ر رہا ہے جو ایک قسم کا سود ہے اس لئے جائز نہیں ہے ۔

Flag Counter