Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

295 - 540
وعن أب یوسف رحمہ اللہ أنہ لا یجوز ف قرابة الولاد ویجوز ف غیرہا. وعنہ أنہ لا یجوز ف جمیع ذلک لما روینا فن الأمر بالدراک والرد لا یکون لا ف البیع الفاسد. ٢  ولہما أن رکن البیع صدر من أہلہ ف محلہ ونما الکراہة لمعنی مجاور فشابہ کراہة الاستیام(١٦٦) ون کانا کبیرین فلا بأس بالتفریق بینہما١  لأنہ لیس ف معنی ما ورد بہ النص وقد صح أنہ علیہ الصلاة والسلام فرق بین ماریة وسیرین وکانتا أمتین أختین.

تشریح  :  پھر بھی دونوں علیحدہ کرکے بیچ دیا تو بیع جائز ہوگی ، البتہ مکروہ ہوگی ۔ 
وجہ  : اس کی وجہ یہ ہے کہ صلب عقد میں کوئی خامی نہیں ہے ، یہ تو خارجی صفت میں خامی ہے کہ اس سے بچے غلام کو تکلیف ہوگی اس لئے بیع جائز ہوجائے گی ۔
ترجمہ : ١  امام ابو یوسف  کی رائے ہے کہ ولادت کی قرابت ہو تو بیع جائز نہیں ہے ، اور اس کے علاوہ کی قرابت ہو تو جائز ہے ۔اور انہیں سے دوسری رائے یہ ہے کہ کسی قرابت میں جائز نہیں ہے ، اس حدیث کی بنا پر جو روایت کی گئی ، اس لئے کہ واپس لینے اور رد کرنے کا حکم بیع فاسد میں ہوتا ہے ۔  
تشریح  : امام ابو یوسف  کی دو رائیں ہیں ]١[ ایک یہ ہے کہ اگر ماں بیٹے کا یا باپ بیٹے کی رشتہ داری ہو تو بیچنا ہی جائز نہیں ہوگی ، بلکہ بیع فاسد ہوگی ۔ ]٢[ اور دوسری رائے یہ ہے کہ کوئی بھی قرابت ہو تو بیچنا جائز نہیں ہے ۔
وجہ  : اس کی وجہ یہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ ردہ اس کو واپس لے لو ، پس واپس لینے کا حکم اسی وقت ہوتا جبکہ بیع فاسد ہو اس لئے ان تمام صورتوں میں بیع فاسد ہے۔ 
ترجمہ  : (١٦٦) اگر دونوں بڑے ہوں تودونوں کو جدا کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
ترجمہ : ١  اس لئے کہ حدیث میں جس وجہ سے منع کیا ہے بڑوں کو جدا کرنے میں وہ وجہ نہیں ہے ۔، اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ماریة اور سیرین کے درمیان تفریق کی تھی ، اور وہ دونوں باندی تھیں اور بہنیں تھیں۔ 
تشریح  : اگر دونوں غلام بڑے ہوں تو انکو جدا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ کیونکہ حدیث میں تو چھوٹوں کو جدا کرنے سے منع کیا ہے ، بڑوں کو نہیں ، کیونکہ انکو انسیت کی ضرورت نہیں ہے ۔ 
وجہ  : (١)کیونکہ چھوٹے بچوں کو انسیت کی ضرورت ہے بڑے کو نہیں اس لئے اس کو جدا کر سکتے ہیں ۔(٢) لمبی حدیث کا ٹکڑا یہ ہے جسکو صاحب ہدایہ نے پیش کی ہے ۔ اخبرنا ابو عبد اللہ الحافظ.....فقال ھی لک یا رسول اللہ  ۖ 

Flag Counter