وفیما لا یتعین شبہة من حیث نہ یتعلق بہ سلامة المبیع أو تقدیر الثمن ٤ وعند فساد الملک تنقلب الحقیقة شبہة والشبہة تنزل لی شبہة الشبہة والشبہة ہ المعتبرة دون النازل عنہا.(١٥٦) قال وکذلک ذا ادعی علی آخر مالا فقضاہ یاہ ثم تصادقا أنہ لم یکن علیہ شیء وقد ربح المدع ف الدراہم یطیب لہ الربح ١ لأن الخبث لفساد الملک ہاہنا
ترجمہ : ٣ جو چیز متعین ہوتی ہے عقد کا تعلق اس میں ہو تو حقیقت خبث ہے ، اور جو چیز متعین نہیں ہوتی اس میں شبہ خبث ہے اس لئے کہ اس کی وجہ سے مبیع کی سلامت ہوتی ہے ، یا ثمن کی مقدار متعین ہوتی ہے ۔
تشریح : مغصوب چیز جس میں غاصب کی ملکیت نہیں ہوتی اس میں نفع ایسی چیز سے اٹھائی جائے جو متعین ہوتی ہے ، جیسے باندی تو اس میں حقیقی اور اصلی خباثت آتی ہے اس لئے اس کو صدقہ کرے۔اور جو چیز متعین نہیں ہوتی ، جیسے درہم اور دینار ، اس سے نفع اٹھانے سے خباثت کا شبہ ہے ، کیونکہ یہ درہم متعین تو نہیں ہوتے ]١[ ایک تو یہ کہ اس کی وجہ سے مبیع سلامت رہتی ہے ، کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں جاتی ]٢[ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ درہم کتنے ہیں ، اس کا وصف کیا ہے ، یہ اسی مغصوب درہم سے متعین ہوئے ہیں ، چاہے وہ درہم دئے نہیں گئے اس لئے اس میں خباثت کا شبہ آگیا اس لئے اس کو بھی صدقہ کرے۔
ترجمہ : ٤ اور ملک کے فساد کے وقت حقیقت خبث نیچے اتر کر خباثت کا شبہ ہوجائے گا ۔ اور شبہ اتر کر شبہة الشبہ ہوجائے گا ، اور شریعت میں شبہ کا اعتبار ہے اس سے نیچے کا اعتبار نہیں ہے ۔
تشریح : بیع فاسد میں جہاں ملک تو ہے لیکن ملک میں فساد ہے ، اس کی دونوں صورتیں عدم ملک سے نیچے اترے گی ، یعنی جو چیز متعین ہوتی ہے، مثلا باندی سے فائدہ اٹھانے میں حقیقت خبث نہیں بلکہ خبث کا شبہ ہو گا ، اور نفع صدقہ کرنا پڑے گا۔اور جو چیز متعین نہیں ہوتی جیسے درہم تو اس سے فائدہ اٹھانے سے خبث کا شبہ نہیں ہوگا ، بلکہ اس سے نیچے اتر کر شبہة الشبہ ہوجائے گا ، اور نفع صدقہ نہیں کرنا پڑے گا ، کیونکہ خباثت کے شبہ تک کا اعتبار ہے اس سے نیچے اتر کر شبہة الشبہ کا اعتبار نہیں ہے ، اس سے بچنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لغت : دون النازل عنھا : اس سے نیچے اترے ہوئے کا اعتبار نہیں ہے ، یعنی شریعت میں شبہ سے بچنے کا حکم ہے ، اس سے نیچے شبہة الشبہ سے بچنے کا حکم نہیں ہے ، اس لئے اس کو کھا سکتا ہے۔
ترجمہ :( ١٥٦) ایسے ہی اگر دعوی کیا دوسرے پر مال کا ، اور اس نے دعوی کرنے والے کو ادا بھی کر دیا ، پھر دونوں نے مان لیا کہ مدعی علیہ پر کچھ نہیں ہے ، اور مدعی نے درہم سے نفع کمایا ہے تو اس کے لئے یہ نفع حلال و طیب ہے ۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ خبث یہاں ملک کے فساد کی وجہ سے ہے ]عدم ملک کی وجہ سے نہیں ہے[