Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

286 - 540
 ٢  لأن الدین وجب بالتسمیة ثم استحق بالتصادق وبدل المستحق مملوک فلا یعمل فیما لا یتعین.

اصول : یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ فساد ملک ہو اور درہم ، دینار ہو تو خباثت کا شبہ الشبہ ہے اس لئے اس سے نفع کمانے والے کے لئے حلال و طیب ہے ، صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔  
تشریح  : مثلا زید نے عمر پر دعوی کیا کہ ایک ہزار درہم پہلے کا قرض ہے ، عمر نے اس کو مان لیا اور ایک ہزار زید کو دے دیا ، زید نے اس سے نفع کمایا تو یہ نفع زید کے لئے حلال و طیب ہے۔
وجہ  : اس کی وجہ یہ ہے کہ زید نے ہزار درہم غصب نہیں کیا ہے ، اور عدم ملک نہیں ہے ۔بلکہ زید نے پرانے قرضے کا دعوی کیا ہے اور عمر کی تصدیق کرنے اور ادا کرنے سے زید اس کا مالک بن گیا ہے پھر بعد میں پتہ چلا کہ عمرپر قرض نہیں تھا ، اس لئے ملک میں فساد آیا ، اور یہ درہم ہے جو متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا ، اس لئے خباثت کا شبہة الشبہ آیا اس لئے زید مدعی کے لئے حلال رہے گا ۔
ترجمہ  : ٢  اس لئے کہ قرض مدعی علیہ پر واجب ہوا ہے مدعی  علیہ کے نام لینے سے ، پھر مدعی علیہ کا ہی مستحق ہوگیا دونوں کے مان لینے کی وجہ سے، اور مستحق شدہ درہم کا بدل مملوک ہے ، اس لئے جہاں متعین نہیں ہوتا اس میں خباثت عمل نہیں کرے گا  
لغت : بالتسمیة: تسمیہ سے مراد ہے وہ قرض جو مدعی کا مملوک ہے ، لیکن بعد میں یہ تصدیق ہوئی کہ مدعی علیہ پر قرض نہیں ہے اس لئے اس میں فساد آیا۔
تشریح  : یہ عبارت بہت پیچیدہ ہے ۔اس کو سمجھیں ۔فرماتے ہیں مدعی علیہ پر جو قرض واجب ہوا ہے وہ خود مدعی علیہ کے ماننے اور نام لینے سے ہوا ہے ، پھر دونوں کی تصدیق کرنے کی وجہ سے وہ درہم مدعی علیہ کا مستحق نکل گیا ، لیکن پہلے مدعی علیہ کے ماننے کی وجہ سے یہ درہم مدعی کا فساد کے ساتھ مملوک ہوا ، اور درہم چیز ایسی ہے جو متعین نہیں ہوتی اس لئے اس سے جو فائدہ اٹھایا اس میں خباثت کا شبة الشبہ ہوا اس لئے وہ مدعی کے لئے حلال اور طیب ہے ۔    
 
Flag Counter