بخلاف النکاح وقد مر الفرق ہناک. ٤ وقولہ رضیت بکذا أو أعطیتک بکذا أو خذہ بکذا ف معنی قولہ بعت واشتریت لأنہ یؤد معناہ والمعنی ہو المعتبر ف ہذہ العقود ٥ ولہذا
ہو گیا جو جائز نہیں ہے اس لئے بیع میں ایک آدمی کی جانب سے امر کا صیغہ ہو تو اس سے بھی بیع منعقد نہیں ہو گی ۔
نوٹ: ہدایہ کے کتاب النکاح مسئلہ (نمبر١٤٨٢) میں مستقبل کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ٫مثل ان یقول زوجنی فیقول زوجتک ، اس سے معلوم ہوا مستقبل سے مراد امر کا صیغہ ہے ۔ مضارع کا صیغہ نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٤ اور آدمی کا قول ٫رضیت بکذا،اور اعطیتک بکذا ، اور خذہ بکذا بعت اور اشتریت کے معنی میں ہے ، اس لئے کہ یہ الفاظ بعت اور اشتریت کے معنی ادا کرتے ہیں ، اور ان عقود میں معنی ہی معتبر ہے ۔
تشریح: بعت اور اشتریت کے بجائے٫رضیت بکذا،اور اعطیتک بکذا ، اور خذہ بکذا، کہا تو اس سے بھی بیع شراء ہو جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ ان الفاظ سے بھی خرید و فروخت کے لئے ایجاب اور قبول کا معنی ادا ہو جاتا ہے اس لئے ان الفاظ سے بھی خرید و فروخت منعقد ہو جائے گی ۔
وجہ: (١) اس حدیث میں اخذت کے لفظ سے چیزخریدی گئی ہے ۔ عن انس بن مالک ان رسول اللہ باع حلسا و قدحا وقال من یشتری ھذا الحلس والقدح؟ فقال رجل اخذتھما بدرھم ۔ (ترمذی شریف ،باب ماجاء فی بیع من یزید ،ص ٢٣٠ ،نمبر ١٢١٨) اس حدیث میں خریدنے والے نے اخذتہما بدرھم، کہہ کر خریدا ہے۔(٢) ۔ عن ابن عمر قال کنا مع النبی ۖ فی سفر فکنت علی بکر صعب لعمر ... فقال النبی لعمر بعنیہ قال ھو لک یا رسول اللہ ۖ ۔ (بخاری شریف ، باب اذا اشتری شیئا فوھب من ساعتہ قبل ان یتفرقا ،ص ٢٨٤ ،نمبر ٢١١٥) اس حدیث میں٫ ھو لک ، کہہ کر حضور ۖ سے گھوڑا بیچا ہے جس سے معلوم ہوا کہ بعت اور اشتریت کے علاوہ جو الفاظ اس معنی کو ادا کرتے ہوں ان سے بھی خرید و فروخت ہو جائے گی ۔
لغت: رضیت بکذا: میں اتنے میں راضی ہوں ۔ عطیتک بکذا: میں نے آپ کو اتنے میں دے دیا ۔ خذہ بکذا: اتنے میں لے لو۔ان الفاظ میں بیع اور شراے کے معانی ہیں اس لئے ان سے خرید و فروخت ہو جائے گی ۔
ترجمہ: ٥ اسی لئے نفیس اور خسیس چیز میں تعاطی سے بیع منعقد ہو جائے گی ، صحیح روایت یہی ہے دونوں کی رضامندی متحقق ہونے کی وجہ سے ۔
تشریح: بیع تعاطی میں کلام سے ایجاب قبول نہیں ہو تا ہے ، لیکن بیع کا معنی پایا جاتا ہے اور دونوں کی رضامندی پائی جاتی ہے اس لئے چاہے حقیر چیز ہو یا عمدہ چیز ہو د ونوں میں بیع تعاطی جائز ہے ، صحیح روایت یہی ہے ۔ حضرت امام کرخی نے فرمایا کہ حقیر