Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

21 - 540
استعمل فیہ فینعقد بہ. ٣   ولا ینعقد بلفظین أحدہما لفظ المستقبل والآخر لفظ الماضي  

مضارع کا یا امر کا صیغہ استعمال کرنے سے کیوں بیع منعقد نہیںہو گی ، اور ایک اشکال کا جواب بھی ہے ۔ اشکال یہ ہے کہ انشاء تو مستقبل میں ہو گا پھر بھی اس کو صیغہ ماضی کے ذریعہ کیوں منعقد کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ  انشاء کس صیغے سے منعقد ہو گا اس کا پتہ شریعت سے چلے گا ، اور شریعت میں ماضی کے صیغے سے انشاء منعقد کیا گیا ہے اس لئے ماضی کے صیغے سے ہی منعقد ہو گا ۔ اس کے لئے حدیث اوپر گزر گئی۔ دوسرا جواب یہ دیتے ہیں کہ ماضی کا صیغہ اگر چہ زمانہ ماضی میں خبر دینے کے لئے آتا ہے ، لیکن کبھی  شریعت کے طور پرمستقبل کے لئے بھی استعمال ہو جاتا ہے ، اس لئے جب مستقبل کے معنی میں استعمال ہوا تو انشاء منعقد ہو جائے گا ، اور بیع ہو جائے گی، چنانچہ بیع شراء میں بھی ماضی کے صیغے سے بیع منعقد ہو جائے گی ۔    
 لغت: انشاء تصرف: کوئی عقد ابھی نہ ہوا ہو اس کو وجود میں لانے کو انشاء تصرف کہتے ہیں ، جیسے بیع سے پہلے مبیع پر مشتری کی ملکیت نہیں ہے ، بیع کے ذریعہ مشتری کی ملکیت ثابت کرنے کو انشاء کہا جائے گا ، یا بیع سے پہلے ثمن پر بائع کی ملکیت نہیں ہے ،بیع کے ذریعہ ثمن پر بائع کی ملکیت کو ثابت کرنے کو انشاء تصرف کہا جاتا ہے۔ انشاء مستقبل میں ہو تا ہے لیکن بات پکی کرنے کے لئے اس کو صیغہ ماضی کے ذریعہ منعقد کرتے ہیں ۔   
ترجمہ: ٣   اور بیع منعقد نہیں ہوگی ایسے دو لفظوں سے کہ ان میں سے ایک مستقبل کا صیغہ ہو ، بخلاف نکاح کے ۔ 
تشریح: ایجاب یا قبول دونوں میں سے ایک ماضی کا صیغہ ہو اور دوسرا مستقبل کا صیغہ ہو یعنی امر کا صیغہ ہو تو اس سے نکاح تو منعقد ہو جائے گا ، لیکن بیع منعقد نہیں ہو گی، کیونکہ یہاں ایجاب اور قبول دونوں الفاظ ماضی کا چاہئے ، اور یہاں ایک امر کا صیغہ ہو گیا ۔ 
وجہ : (١) اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح میں ایک لفظ امر کا  صیغہ  ہو جائے ، مثلا عورت نے کہا زوجنی ، میرا نکاح کرا دیجئے تو اس سے ہونے والے شوہر کو نکاح کا وکیل بنانا ہوا ، اور شوہر نے اپنی جانب سے اور بیوی کی جانب سے ٫زوجت ، کہا تو نکاح ہو جائے گا ، کیونکہ نکاح میں تمام حقوق مؤکل کی طرف لوٹتے ہیں اس لئے ایک ہی آدمی مطالبہ کرنے والا اور مطالبہ کو ادا کرنے والا نہیں ہوا بلکہ عورت کے حقوق کو ادا کرنے والی عورت ہو گی ، اور شوہر کے حقوق کو ادا کرنے والا شوہر ہوگا ۔ اور بیع میں تمام حقوق وکیل کی طرف لوٹتے ہیں اور وہی حقوق ادا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، اس لئے اگر زید نے خالد سے کہا ٫ بع عبدی بالف ، ]میرا غلام ہزار کے بدلے میں بیچ دو، اس امر سے خالد زید کی جانب سے بیچنے کا وکیل بن گیا ، اور بیع کے تمام حقوق اسی کے ذمے ہو گئے ، پھر خالد نے اس کے جواب میں٫ اشتریت ُ ، کہا ] کہ میں نے خرید لیا [ تو خود مؤکل ہونے کی وجہ سے خریدنے کے تمام حقوق ادا کرنے کے بھی وہی ذمے دار ہو گئے ، اس صورت میں حق کا طلب کرنا اور حق کا ادا کرنا بھی ایک ہی آدمی کے ذمے 

Flag Counter