ذکرنا٢ والمحاقلة بیع الحنطة ف سنبلہا بحنطة مثل کیلہا خرصا٣ ولأنہ باع مکیلا بمکیل من جنسہ فلا یجوز بطریق الخرص کما ذا کانا موضوعین علی الأرض وکذا العنب بالزبیب
ص٣٤٩ ،نمبر ٢١٨٦ مسلم شریف ، باب تحریم بیع الرطب بالتمر الا فی العرایا ، ص٦٦٧، نمبر٣٨٧٨١٥٣٩) اس حدیث میں مزانبہ کو حضورۖ نے منع فرمایا ہے۔ (٣) سمعت جابر بن عبد اللہ ۖ عن بیع الصبرة من التمر لا یعلم مکیلھا بالکیل المسمی من التمر ۔ ( مسلم شریف ، باب تحریم بیع صبرة التمر المجہولة القدر بتمر، ص ٦٦٤، نمبر ١٥٣٠ ٣٨٥١) اس حدیث میں ہے کہ کھجور کی مقدار معلوم نہ ہو تو اس کے مثل کے ساتھ بیع نہ کرے ۔
لغت : مزبنة : اندازہ سے پھل بیچنا۔محاقلة : کھیتی کو خوشہ میں بیچنا۔ حقل سے مشتق ہے ، کھیتی ۔ مجذوذ: کٹا ہوا ۔کیلہ : کیل کرکے ۔خرصا: اندازہ کرکے ۔ سنبل : بالی ۔
ترجمہ : ٢ اور محاقلة یہ ہے کہ بالیوں میں گیہوں ہو اس کو اسی کے مثل کیل کرکے گیہوں بیچنا اندازہ کرکے ۔
تشریح : حضور ۖ نے بیع محاقلہ سے بھی منع فرمایا ہے ، اور محاقلہ کی تعریف یہ ہے ، کہ مثلا کھڑی کھیتی کا اندازہ لگائے کہ بیس کیلو گیہوں ہوگا ، اس کے بدلے صاف کیا ہوا گیہوں بیس کیلو دے دے ، اس بیع کو محاقلہ کہتے ہیں ۔
ترجمہ : ٣ اس لئے کہ کیلی چیز کواسی کی جنس کے ساتھ کیل کرکے بیچا تو اندازہ کرکے جائز نہیں ہے ، جیسا کہ دونوں زمین پر رکھے ہوئے ہوں تو اندازہ کرکے جائز نہیں ہے ]اس لئے کہ اس میں سود ہوگا[، ایسے ہی ترانگور کو خشک انگور کے بدلے ۔
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے ۔ دونوں ایک ہی جنس ہیں ، مثلا گیہوں ہیں ، اور دونوں کیلی ہیں تو اندازہ کرکے اس لئے بیچنا جائز نہیں ہے کہ کم بیش ہوجائے گا اور سود ہوجائے گا ، چاہے کھیتی ہو، یا چاہے دونوں زمین پر رکھے ہوئے صاف گیہوں ہوں ۔ اسی طرح تر انگور کو خشک انگور ] جسکو کشمش کہتے ہیں [کے بدلے اندازہ کرکے بیچنا جائز نہیں۔ کیونکہ چاہے ایک تر ہے اور دوسرا خشک ہے ، لیکن دونوں ایک ہی جنس کے ہیں اور دونوں کیلی ہیں اس لئے کم بیش کرکے جائز نہیں ہے سود ہوجائے گا ۔
وجہ : اس کے لئے حدیث یہ ہے۔عن عبد اللہ بن عمر ان رسول اللہ ۖ نھی عن المزانبة ،والمزابنة بیع الثمر بالتمر کیلا ، و بیع الکرم بالزبیب کیلا۔ (بخاری شریف ، بیع المزانبة وھی بیع التمر بالثمر، ص٣٤٩ ،نمبر٢١٨٥ مسلم شریف ، باب تحریم بیع الرطب بالتمر الا فی العرایا، ص٦٦٩، نمبر٣٨٩٣١٥٤٢) اس حدیث میں انگور کو کشمش کے بدلے اندازہ کرکے بیچنے سے منع فرمایا ہے ۔
ترجمہ : ٤ اور امام شافعی نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم میں جائز ہے ، اس لئے کہ حضور ۖ نے مزابنہ سے منع فرمایا اور عرایا میں رخصت دی ۔اور عرایا یہ ہے کہ پانچ وسق سے کم کھجور کو اندازے سے بیچے ۔ ایک وسق 60 صاع کا ہوتا ، اور ایک