ولو لم یکن معینا لا یجوز لما ذکرنا وللجہالة أیضا٣ ولو قطع البائع الذراع أو قلع الجذع قبل أن یفسخ المشتر یعود صحیحا لزوال المفسد٤ بخلاف ما ذا باع النوی ف التمر أو البذر ف البطیخ حیث لا یکون صحیحا. ون شقہما وأخرج المبیع لأن ف وجودہما احتمالا أما الجذع فعین موجود. (١١٢)قال وضربة القانص ١ وہو ما یخرج من الصید بضرب الشبکة
جہالت کی وجہ سے بھی ۔
تشریح : چھت میں بہت سے شہتیر ہیں ان میں کوئی ایک شہتیر متعین نہیں کیا ، یا کپڑے میں کس طرف سے ایک گز لیگا اس کو متعین نہیں کیا تو پھر دو وجہوں سے بیع فاسد ہے ۔ ]١[ ایک وجہ پہلے ذکر کیا ، یعنی مبیع بائع کی ملکیت کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہے کہ اس کو الگ کرنے سے بائع کا نقصان ہے جس سے بیع فاسد ہے ]٢[ دوسری وجہ یہ ہے کہ شہتیر اور گز متعین نہیں ہیں اس لئے مبیع مجہول ہے ، اس جہالت کی وجہ سے بھی بیع فاسد ہے ۔
ترجمہ : ٣ اگر بائع نے مشتری کے فسخ کرنے سے پہلے ایک ہاتھ کپڑا کاٹ کر دے دیا ، یا شہتیر اکھاڑ کر دے دیا تو واپس صحیح ہوجائے گی مفسد کے زائل ہونے کی وجہ سے ۔
تشریح : مشتری کے بیع ختم کرنے سے پہلے بائع نے ایک گز کپڑا کرتے سے کا ٹ کر دے دیا ، یا چھت سے شہتیر نکال کر دے دیا تو بیع صحیح ہوجائے گی ۔
وجہ : بائع کی ملکیت کے ساتھ خلط ملط ہونے کی وجہ سے بیع فاسد ہے ہوئی تھی ، لیکن اس نے نکال کر دے دیا تو فساد کی چیز ختم ہوگئی اس لئے لوٹ کر بیع درست ہوجائے گی ۔
ترجمہ : ٤ بخلاف جبکہ کھجور کے اندر گٹھلی ، یا خربوزے کے اندر دانے بیچی تو بیع صحیح نہیں ہوگی اگر چہ اس کو پھاڑا اور مبیع نکالا ، اس لئے کہ اس کے پائے جانے میں احتمال ہے ، بہر حال شہتیر تو موجود عین ہے ۔
تشریح : کھجور کے اندر گٹھلی بیچی ، یا خربوزے کے اندر دانہ بیچا تو یہ چھپا ہوا ہے ، تو گویا کہ مبیع معدوم ہے اس لئے بیع باطل ہوئی اس لئے بعد میں گٹھلی نکال کر دے دیا ، یا خربوزے کا دانہ نکال کر دے دیا تب بھی الٹ کر بیع جائز نہیں ہوگی ، کیونکہ پہلے سے بیع ہی نہیں ہوئی ہے ۔ اس کے برخلاف شہتیر میں مبیع سامنے موجود ہے اس لئے بیع تو ہوگئی ہے البتہ بائع کی ملکیت کے ساتھ خلط ملط ہے اس لئے بیع فاسد ہوگی ، اور جب نکال کر دے دیا تو الٹ کر جائز ہوجائے گی ۔
لغت النوی : گٹھلی ۔البذر : دانہ ۔ البطیخ : خربوزہ۔ شق : پھاڑنا ۔ عین موجود : جو چیز سامنے موجود ہو اس کو ٫عین موجود ، کہتے ہیں
ترجمہ : (١١٢)اور نہیں جائز ہے جال کا ایک پھینک۔