صلاح قشرہ علی ما قیل لأن مالیتہ باعتبار اللب (٨٧)ون کان ینتفع بہ مع فسادہ لم یردہ] لأن الکسر عیب حادث[ ولکنہ یرجع بنقصان العیب ١ دفعا للضرر بقدر المکان. ٢ وقال
تشریح : یہ مسئلے اس اصول پر ہیں کہ اوپر سے مبیع اچھی معلوم ہوتی ہے ، لیکن اندر سے خراب ہے تو اگر بالکل استفادے کے لائق نہیں ہے ، جیسے انڈا اوپر بہت اچھا ہے لیکن اندر سے گندا ہے ، اور یہ بالکل استفادے کے لائق نہیں ہے تو یہ مال ہی نہیںہے اس لئے بیع باطل ہوگئی اس لئے پوری قیمت واپس لیگا
لغت : بیض : انڈا ۔ بطیخا : خربوزہ ۔ قثاء : ککڑی ۔ خیار ۔ کھیرا ۔ جوزا: اخروٹ ، یہ سب چیزیں وہ ہیں جنکا اوپر سے اچھا ہو سکتا ہے ،لیکن اندر سے خراب ہوں۔
ترجمہ : ٢ اور اخروٹ میں اس کے چھلکے کے صحیح ہونے کا اعتبار نہیں ہے ، جیسا کہ کہا گہا ہے اس لئے کہ اس کی مالیت مغز کے اعتبار سے ہے ۔
تشریح: اخروٹ ، انڈا ہے ان میں اس کے مغز کی قیمت ہے چھلکے کی نہیں اسلئے اسکے چھلکے کے ٹھیک ہونے کااعتبار نہیں ہے
ترجمہ : ( ٨٧) اور اگر خراب کے باوجود اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو مبیع واپس نہیں کرے گا ۔] اس لئے توڑنا نیا عیب ہے [لیکن عیب کا نقصان وصول کرے گا ۔
ترجمہ : ١ بقدر امکان نقصان کو دفع کرنے کے لئے ۔
تشریح : اگر اخروٹ خراب ہونے کے باجود اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو مبیع واپس نہ کرے ، لیکن نقصان وصول کرے گا ، کیونکہ توڑنے کی وجہ سے نیا عیب پیدا ہو چکا ہے ۔ اس لئے جتنا ممکن ہو سکتا ہے مشتری کو نقصان سے بچایا جائے گا ۔
ترجمہ : ٢ امام شافعی نے فرمایا کہ مبیع بائع کوواپس کردے اس لئے کہ بائع کے مسلط کرنے سے توڑنا ہوا ہے ۔
تشریح : امام شافعی کی رائے ہے کہ اخروٹ توڑنے کے باوجود اس کو بائع کی طرف واپس کردے ، کیونکہ مشتری نے بائع کے اختیار دینے سے توڑا ہے ، اس لئے مشتری کی غلطی نہیں ہے ۔
وجہ : (١) انکی دلیل یہ قول تابعی ہے ۔ عن ابن سیرین قال اشتری رجل من رجل دابة فسافر علیھا فلما رجع وجد بھا عیبا فخاصمہ الی شریح فقال لہ انت اذنت لہ فی ظھرہا ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب رجل اشتری دابة فسافر علیھا ثم وجد بھا عیبا ، ج رابع ، ص ٥٠٥، نمبر ٢٢٥٤٩ مصنف عبد الرزاق ،باب الذی یشتری الامة فیقع علیھا او الثوب فیلبسہ او یجد بہ عیبا ۔ الخ ، ج ثامن ، ص ١٢٠، نمبر١٤٧٧٥) اس قول تابعی میں ہے کہ خود بائع نے سفر کرنے کی اجازت دی ہے ۔