Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

102 - 540
٣    بخلاف خیار العیب لأن المورث استحق المبیع سلیما فکذا الوارث فأما نفس الخیار لا یورث   ٤   وأما خیار التعیین یثبت للوارث ابتداء لاختلاط ملکہ بملک الغیر لا أن یورث الخیار.(٤٧) قال ومن اشتری شیئا وشرط الخیار لغیرہ فأیہما أجاز جاز وأیہما نقض انتقض    ١    وأصل ہذا أن اشتراط الخیار لغیرہ جائز استحسانا وف القیاس لا یجوز وہو قول زفر لأن الخیار من مواجب العقد وأحکامہ فلا یجوز اشتراطہ لغیرہ کاشتراط الثمن علی غیر المشتر ي .  

ہوتی ہے ، اور یہ حسی چیز نہیں ہے اس لئے اس میں وراثت جاری نہیں ہو گی ۔
ترجمہ:  ٣  بخلاف خیار عیب کے اس لئے کہ مورث صحیح سلامت مبیع کا حقدار تھا ، ، پس ایسے ہی وارث حقدار ہے ۔ بہر حال نفس خیار تو وارث نہیں ہو گا ۔
تشریح:  یہ امام ابو یوسف  کو جواب ہے ۔ خیار عیب لغت کے اعتبار سے مشیت اور چاہت ہے  اس لئے وہ منتقل نہیں ہو گا ، اور خیار عیب کا مطلب یہ ہے کہ مورث صحیح سالم مبیع کا حقدار ہے ، اس لئے وارث بھی صحیح سالم مبیع منتخب کر سکتا ہے ، یہ وراثت کا منتقل ہونا نہیں ہے بلکہ اپنے حق کو وصول کرنا ہے ۔
ترجمہ:  ٤  خیار تعیین شروع ہی سے وارث کے لئے ثابت ہے ، کیونکہ اس کی ملک غیر کی ملک کے ساتھ ملی ہوئی ہے یہ بات نہیں ہے کہ خیار کی وراثت ہوئی ۔ 
 تشریح:  یہ بھی امام ابو یوسف  کو جواب ہے ۔ کہ خیار تعیین وراثت میں منتقل نہیں ہوئی  ہے بلکہ وارث کو شروع سے یہ حق ہے کہ مبیع غیر کی ملک کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس لئے اس کو علیحدہ کر کے اپنی ملک میں لے آئے اس لئے وارث کو اس کا حق ہو گا ، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ خیار شرط بھی وراثت کے طور پر وارث کی طرف منتقل ہو ۔ 
ترجمہ: ( ٤٧) کسی نے کوئی چیز خریدی اور دوسرے کے لئے خیار شرط لیا  تو جو بھی جائز قرار دے گا جائز ہو جائے گی ، اور جو بھی بیع توڑے گا تو ٹوٹ جائے گی ۔   
 تشریح:   مثلا زید نے کپڑا خریدا اور خیار شرط اپنی بیوی کے لئے لیا کہ تین دن میں وہ جائز کرے گی تو جائز ہو گی اور وہ بیع توڑ دے گی تو بیع ٹوٹ جائے گی ۔ تو یہ جائز ہے ، اور دونوں کو اختیار ملے گا، یعنی خود خریدنے والا بھی بیع جائز کر سکتا ہے اور توڑ سکتا ہے اور جس کے لئے اختیار لیا ہے وہ بھی بیع جائز قرار دے سکتا ہے اور توڑ سکتا ہے ۔   
ترجمہ:  ١  اور اس کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ خیار شرط غیر کے لئے استحسانا جائز ہے ، اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جائز نہ ہو اور یہی قول امام زفر  کا ہے ، اس لئے کہ خیار عقد کے موجب  اور اس کے احکام میں سے ہے ، اس لئے غیر پر اس کی شرط لگانا جائز 

Flag Counter