گا ۔ آپ نے فرمایا کہ تم ان کے اہل نہیں ( نعوذباﷲ)پھر حضرت عمر سے پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں دوسروں کو ہدایت کروں گا اور کفار پر سختی کروں گا ۔ حضور نے فرمایا کہ تم بھی اس کے اہل نہیں ۔ پھر حضرت عثمان ؓ سے پوچھا اور انہوں نے بھی کچھ ایسا ہی جواب دیا ۔ وہ بھی اہل نہ نکلے پھر حضرت علی ؓ سے پوچھا انہوں نے کہا، میں مخلوق کی ستاری کروں گا۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ہاں تم اس کے اہل ہو ۔ پھر ان کو وہ تیس ہزار علوم عطا ہوئے کسی نے خوب فرصت میں بیٹھ کر گھڑی ہے ۔ بھلا ان سے پوچھے کہ معراج میں جو باتیں حضورؐ سے ہوئی تھیں کیا تم ان کو سن رہے تھے جو تم کو ان کی تعداد بھی معلوم ہوگئی ؟
ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ معراج میں حضورؐ سے حق تعالیٰ نے کیا باتیں کی تھیں ۔ انہوں نے جواب دیا ؎
اکنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغباں
بلبل چہ گفت وگل چہ شنید و صبا چہ کرد
غرض حضرت علیؓ کے متعلق لوگوں کا یہ خیال ان کی حیات ہی میں ہو گیا تھا کہ ان کو کچھ خاص علوم عطا ہوئے ہیں جس کی وجہ یہ تھی کہ معارف وحکم حضرت علیؓ کی زبان سے بہت ظاہر ہوتے تھے ۔ اس سے لوگوں کو یہ خیال ہوا ۔ پھر بعض نے خود حضرت علی ؓ سے اس کو دریافت کیا۔
ھل خصکم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بشیء من دون الناس؟
کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے الگ کوئی خاص چیز عطا فرمائی ہے ؟ آپ نے دو جواب دئیے ایک جواب ’’قال لا الا ما فی ہذہ الصحیفۃ ‘‘ فرمایا ہر گز نہیں مگر صرف وہ احکام جو اس صحیفہ میں لکھے ہوئے ہیں ( اس میں صدقات اور دیت کے احکام تھے جن کا خاص نہ ہونا سب کو معلوم ہے )
دوسرا جواب ’’ قال ما خصنا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الا فھما اوتیہ الرجل فی القرآن‘‘ یعنی ہم کو کوئی خاص چیز عطا نہیں ہوئی مگر ایک فہم جو حق تعالیٰ کسی بندہ کو قرآن میں عطا فرماویں۔ حاصل جواب کا یہ تھا کہ جو علوم مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان کا منشا یہ نہیں کہ حضور ؐ نے مجھے کچھ خاص علوم دوسرے مسلمانوں سے الگ بتلائے ہیںبلکہ اس کا منشا خاص فہم ہے جو حق تعالیٰ نے قرآنی یعنی دین میں مجھے عطافرمائی ہے ۔یہی حقیقت ہے علم جو تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اور یہی ہے وہ فقہ جس کے متعلق رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔
فقیہ واحدأشد علی الشیطان من الف عابد
کہ ایک فقیہ شیطان پر ہزاروں عابدوں سے زیادہ گراں ہے اس سے درسی فقہ مراد نہیں ۔ کیونکہ محض کتابیں پڑھنے سے شیطان کی چالیں سمجھ میں نہیں آتیں