وہی ہے جوزکوٰۃ کا ہے اس لئے زمینوں کی مال گزاری یا کسی ٹیکس کے ادا کرنے سے عشر ادا نہ ہوگا جیسا کہ تجارتی مال یا نقد کی زکوٰۃ انکم ٹیکس وغیرہ ادا کرنے سے ادا نہیں ہوتی اس وجہ سے لازم ہے کہ حکومت کی مالگزاری ٹیکس کی ادائیگی کے بعد بھی زمین کا عشر نکالا جائے ۔ البتہ خراج چونکہ عبادت نہیں بلکہ محض ایک ٹیکس ہے اس لئے خراجی زمینوں کے مسلمان مالک جو رقم مال گزاری میں ادا کرتے ہیں ۔حکومت کو دینے سے خراج۵؍۱ ادا ہوجائے گا۔(نظام اراضی بتفسیر شرعیہ۵۷؍۱)
تنبیہ
حکومت پاکستان اس وقت مسلمانوں سے جو انکم ٹیکس وصول کرتی ہے وہ چونکہ زکوٰۃ کے شرعی اصول کے تحت نہیں ہوتا اسی طرح زمین کی مالگذاری کی وصولی میں بھی عشر اور خراج کے شرعی اصول کا لحاظ نہیں کیا جاتا اس لئے انکم ٹیکس یا زمین کی مالگذاری ادا کرنے پر بھی زکوٰۃ اور عشر کے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوتی مگر مصارف خراج پر چونکہ حکومت بہت زیادہ رقوم خرچ کرتی ہے جن میں فوج کی تنخواہ اور دوسرے فوجی مصارف سب داخل ہیں اس لئے خراجی زمینوں کے مسلمان مالک جو رقم سرکاری مال گزاری میں ادا کرتے ہیں چونکہ خراج عبادت نہیں اس لئے خراج ادا ہوجاتا ہے ۔(نظام اراضی)
اب اگر حکومت پاکستان زکوٰۃ وعشر کو شرعی اصول کے مطابق وصول کرنے اوران کے شرعی مصارف پر خرچ کا انتظام کر رہی ہے تو حکومت کو ادا کرنے سے بھی زکوٰۃ وعشر ادا ہوجائیں گے ۔ اور دینے والا بھی فرض سے سبکدوش ہوجائے گا۔
٭اجناس جن میں عشر واجب ہے اور جن میں نہیں ٭
عشری زمین سے جو پیداوار ہو خواہ کم مقدار ہو یا زیادہ ہو غلّہ ہو یا سبزی ترکاری ،میوہ ،پھل وغیرہ ہو بشرطیکہ وہ اس زمین کی مقصودی پیداوار ہو اس میں عشر لازم ہے آم وغیرہ جو پھل تھوڑا تھوڑا اترتا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ جس قدر پھل اترتا جائے اس قدر کا عشر دے دینا چاہئے ۔(فتاوٰی رشیدیہ)
مسئلہ… زمین کی ایسی پیداوار جس کی مالیت مقصود نہیں نرسل معمولی بے قیمت لکری جیسے لئی اور خود رو گھاس ،بھوسہ اور کھجور کے پتے، گوند اور خطمی اور روئی کی خالی ڈنڈی اور بازنجان کی بیل اور خربوزہ اور تربوز کے تخم اور دوائی اور دھنیے کے پتے وغیرہ ان میں عشر نہیں ہے کیونکہ ان میں مالیت مقصود نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر ان سے مالیت مقصود ہو جیسا کہ آج کل کے زمینداران اپنی اراضی میں نرسل ،بانس وغیرہ بڑی حفاظت سے رکھتے ہیں اور یہ ان کے نزدیک اس زمین کی پیداوار شمار کی جاتی ہے تو اس صورت میں عشر ہوگا۔ (درمختار)