کھاجائے یا گرمی یا سردی کی شدت سے سوکھ جائے تو عشر وخراج ساقط ہوجاتا ہے ۔ البتہ اگر تین ماہ کے اندر ایسی زمین سے کوئی دوسری فصل اٹھائی جا سکے تو خراج کی مقررہ رقم ساقط نہیں ہوتی اور آفت غیر سماوی جس کا روکنا ممکن تھا اس کو نہیں روکا گیا مثلاً جانوروں کا فصل کو کھاجانا تو خراج کی مقررہ رقم بحال رہے گتی اور عشر وخراج مقاسمہ (حصہ داری ) ساقط ہوجائیں گے ۔(شامی ۲؍۷۲)
مسئلہ…اگر کسی شخص نے باجود طاقت کے زمین میں زراعت نہیں کی تو عشر واجب نہ ہوگا مگر خراج ہوگا۔(درمختاربرشامی ۲؍۷۲)
مصارف عشر
عشر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں اور جس طرح زکوٰۃ کے لئے یہ ضروری ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ کو بغیر کسی معاوضہ کے مالکانہ طور پر قبضہ کرادیا جائے اسی طرح عشر کی ادائیگی کا بھی یہی طریقہ ہے (نظام اراضی)
شریعت میں مصرف اس مسلمان کو کہتے ہیں جس کو زکوٰۃ دینا درست ہو اور جو مصرف زکوٰۃ کا ہے شرعاً وہی عشر کا بھی ہے ۔(شامی) قرآن کریم میں مصارف صدقات آٹھ شمار کئے گئے ہیں ان میں پہلا مصرف فقراء ہیں ،دوسرا مسکین۔
جس شخص کے پاس اس کی مذکورہ ضروریات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال نہ ہو اس کو زکوٰۃ وعشر دیا جاسکتا ہے ضروریات میں رہنے کا مکان وہ اس میں رہتا ہو یا نہ رہتا ہو ۔ استعمالی برتن اور کپڑے ،اور استعمالی فرنیچر وغیرہ سب داخل ہیں ۔ نصاب یعنی سوناساڑھے سات تولہ یا چاندی ساڑھے باون تولہ یا اتنی چاندی کی قیمت جس کے پاس ہو اور وہ قرض دار بھی نہ ہو نہ اس کو زکوٰۃ دیناجائز ہے نہ لینا۔ اسی طرح وہ شخص جس کے پاس کچھ چاندی یا کچھ پیسے نقد ہیں اور تھوڑا سا سونا ہے تو سب کی قیمت لگا کر اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو وہ بھی صاحب نصاب ہے اس کو زکوٰۃ دینا اور لینا جائز نہیں ۔فقیر اور مسکین کے دونوں مصرفوں میں یہ بات مشترک ہے کہ جس کو مال زکوٰۃ دیا جائے وہ مسلمان ہو اور حاجات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال کا مالک نہ ہو ۔
تیسرا مصرف
’’العاملین علیہا‘‘ ہے یہاں عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات زکوٰۃ وعشر وغیرہ لوگوںسے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں ۔ عاملین صدقہ کی اصل حیثیت یہ ہے کہ یہ لوگ فقراء کے وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کا تقرر امیر مملکت کی طرف سے ہوتا ہے اور امیر مملکت من جانب اﷲ پورے ملک کے فقراء غرباء کا وکیل ہوتا ہے کیونکہ ان سب کی ضروریات کی ذمہ داری اس پر عائد