وَآتُوْا حَقَّہ‘ یَوْمَ حَصَادِہٖ
ترجمہ۔ (اور اداکرو ان کاحق جس دن ان کو کاٹو) وجوب عشر میں بالکل صریح اور واضح ہے ۔معنی یہ ہیں کھیتی کاٹنے یا پھل توڑنے کے وقت اس کا حق ادا کرو۔
حدیث سے ثبوت
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کاارشاد تمام کتب حدیث میں منقول ہے ۔
ما سقت السماء ففیہ العشر وما سقی بغرب اودالیۃ ففیہ نصف العشر۔
یعنی بارانی زمینوں میں جہاں آب پاشی کا کوئی سامان نہیں صرف بارش پر پیداوار کا دار ومدار ہے ان زمینوں کی پیداوار کا دسواں حصہ بطور زکوٰۃ نکالنا واجب ہے اور جو زمینیں کنوئیں سے سیراب کی جاتی ہیں ان کی پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہے (از معارف القرآن)
وجوب عشر کی شرائط
عشر کے واجب ہونے کی پہلی شرط مسلمان ہونا ہے کیونکہ عشر خالصۃً عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں (نظام اراضی بحوالہ بدائع)
تنبیہ
مسلمان کی زمین کی پیداوار میں اصل فریضہ عشر ہی ہے کہ ابتداء مسلمان پر خراج عائد نہیں کیاجاتا مگر کافر سے خریدی ہوئی خراجی زمین کی پیداوار میں اس کا سابقہ وظیفۂ خراج مسلمان پر بھی لازم رہے گا۔
دوسری شرط
زمین کا عشری ہونا ہے ۔ خراجی زمین پر عشر واجب نہیں ہوتا کیونکہ حدیث میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک زمین پر دو فریضے عشر اور خراج کے جمع نہیں ہو سکتے (نظام اراضی) اس لئے مسلمان کی جس زمین پر خراج واجب ہو اس پر عشر واجب نہیںہوگا۔
تیسری شرط
زمین سے پیداوار کا حاصل ہونا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے پیداوار نہ ہو خواہ کسی بے اختیاری سبب سے یا اس کی کوتاہی اور غفلت سے کہ زراعت ہی نہیں کی یا اس کی خبر گیری اور حفاظت نہیں کی بہر صورت عشر ساقط ہوجائے گا(نظام اراضی)بخلاف خراج کے ۔
چوتھی شرط
یہ ہے کہ پیداوار کوئی ایسی چیز ہو جس کو بونے کا رواج ہو اور عادتاً اس کی کاشت کر کے نفع اٹھایا جاتا ہو ۔ خود رو گھاس یا بے کار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں ہوجائیں تو ان میں عشر نہیں گھاس اور بانس کو اگر آمدنی کی غرض سے اگایا گیا ہو یا سینچا گیا ہو تو ان میں بھی عشر ہے اور ویسے ہی