Deobandi Books

احکام عشر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

11 - 21
ہوتی ہے اس لئے امیر مملکت جس جس کو صدقات کی وصولیابی پر عامل بنادے وہ سب نائب امیر کی حیثیت سے فقراء کے وکیل ہوجاتے ہیں ۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ عاملین صدقہ کو جو کچھ دیا گیا وہ در حقیقت زکوٰہ نہیں دی گئی بلکہ زکوٰہ جن فقراء کا حق ہے ان کی طرف سے معاوضہ خدمت دیاگیا ۔
اور یہ سب کو معلوم ہے کہ وکیل کا قبضہ اصل مؤکل کے قبضہ کے حکم میں ہوتا ہے ۔ جب رقم زکوٰۃ عاملین صدقہ نے فقراء کے وکیل ہونے کی حیثیت سے وصول کرلی تو زکوٰۃ ادا ہوگئی اب یہ پوری رقم فقراء کی ملک ہے جن کی طرف سے بطور وکیل انہوں نے وصول کی ہے اب جو رقم بطور حق الخدمت کے ان کو دی جاتی ہے وہ مال داروں کی طرف سے نہیں بلکہ فقراء کی طرف سے ہوئی اور فقراء کو اس میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اختیار ہے ۔
اس سے دونوں سوال حل ہوگئے ۔ایک یہ کہ مال زکوٰۃ کو معاوضہ خدمت میں کیسے دیا گیا ؟دوسرایہ کہ مال دار کے لئے یہ مال زکوٰۃ حلال کیسے ہوا؟ (ماخوذاز معارف القرآن بتغیرج۴)
عامل کا لفظ ساعی اور عاشر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ساعی وہ ہے جو کہ سائمہ جانوروں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے قبیلوں میں بھیجا جائے اور عاشر وہ ہے جس کو امام نے عشر وصول کرنے کے لئے راستہ پر مقرر کیا ہو۔
بیان مذکور سے معلوم ہوا کہ عاملین صدقہ کو جو رقم مد زکوٰۃ سے دی جاتی ہے باوجود غنی ومال دار ہونے کے بھی وہ اس رقم کے مستحق ہیں اور مصارف زکوٰۃ کی آٹھ مدات میں سے صرف ایک یہی مد ایسی ہے جس میں رقم زکوٰہ بطور معاوضہ خدمت دی جاتی ہے اگر کسی غریب فقیر کو کوئی خدمت لے کر مال زکوٰۃ دیا گیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی ۔(معارف القرآن ج۴)
مسئلہ…اگر عامل ہاشمی کو صدقات وصول کرنے کے واسطے مقرر کیاجائے اور اس کو اس میں سے روزینہ دیں تو اس کو لینا نہیں چاہئے اور اگر وہ یہ کام کرے اور روزینہ دوسری مد میں سے دیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں (بحر الرائق۲؍۲۵۹)
اس سے معلوم ہوا کہ ہاشمی کو عامل بنانا درست ہے مگر اس کو صدقات سے اجرت لینا حلال نہیں (بحرالرائق ۲؍۲۵۹)
مسئلہ…اگر عامل کے پاس مال ہلاک ہوجائے تو مال والوں کے ذمہ سے فرض ادا ہوجاتا ہے اس لئے کہ عامل کا قبضہ بمنزل امام کے قبضہ کے ہے اور وہ فقراء کی طرف سے ان کا نائب (یعنی ولی ) ہے (بحوالہ بالا)
مگر اس صورت میں عامل کی اجرت بوجہ مال کے ہلاک ہونے کے باطل ہو جائے گا اور اس کو بیت المال سے کچھ نہیں دیاجائے گا۔(بحوالہ بالا)
چوتھا مصرف
مصارف زکوٰۃ میں سے ’’مؤلفۃ القلوب ‘‘ ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 احکام عشر 1 1
3 عشر 1 2
4 خلاصہ 1 2
5 عشر کی فرضیت 1 2
6 قرآن سے ثبوت 1 2
7 سورئہ انعام کی آیت 1 2
8 حدیث سے ثبوت 2 2
9 وجوب عشر کی شرائط 2 1
10 تنبیہ 2 9
11 دوسری شرط 2 9
12 تیسری شرط 2 9
14 چوتھی شرط 2 9
15 عقل وبلوغ شرط نہیں 3 9
16 ملکیت زمین 3 9
17 عشر کے لازم ہونے کا وقت 4 1
18 تعجیل عشر 5 17
19 نصاب عشر 5 17
20 حولان حول 5 17
21 قرض 5 17
22 مقدار واجب 5 17
23 تنبیہ 6 17
24 سرکاری مال گزاری 6 17
25 تنبیہ 7 17
26 اجناس جن میں عشر واجب ہے اور جن میں نہیں 7 17
27 عشر کو ساقط کرنے والے امور 9 17
28 مصارف عشر 10 1
29 تیسرا مصرف 10 28
30 چوتھا مصرف 11 28
31 پانچواں مصرف 12 28
32 چھٹا مصرف 12 28
33 ساتواں مصرف 12 28
34 آٹھواں مصرف 12 28
35 ’’ابن السبیل‘‘ 13 28
36 جن لوگوں کو زکوٰۃ وعشر دینا جائز نہیں ہے 14 28
37 زمینوں کے عشری اور خراجی ہونے کا بیان 15 28
38 عشری اور خراجی زمینوں کی تعریف 15 1
39 ایک شبہ کا ازالہ 15 38
40 بدائع کی عبارت ذیل سے یہ بات واضح ہے 17 38
41 متروکہ غیر مسلم زمینوں کا حکم 18 38
42 حکومت پاکستان کی آبادہ کردہ زمینوں کا حکم 18 38
43 غیر مسلم کی زمینوں کا حکم 18 38
44 خلاصہ یہ ہے کہ 19 38
45 قیام پاکستان سے پہلے 20 38
46 عشری پانی 21 1
47 فقہاء کی تصریحات کے مطابق عشری پانی چار ہیں 21 46
48 خراجی پانی 21 46
Flag Counter