لئے ان کو صدقات دیئے جاتے تھے ۔
تحقیقی اور صحیح بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کو صدقات وغیرہ سے کسی وقت کسی زمانہ میں حصہ نہیں دیا گیا اورنہ وہ مؤلفۃ القلوب میں داخل ہیں جن کا ذکر مصارف صدقات میں آیا ہے ۔امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی تفسیر میں ان سب کو شمار کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ مؤلفۃ القلوب سب کے سب مسلمان ہی تھے ان میں کوئی کافر شامل نہیں تھا ۔اسی طرح تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ بات کسی روایت سے ثابت نہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی کافر کو مال زکوٰۃ میں سے اس کی دل جوئی کے لئے حصہ دیا ہو اور بعض روایات حدیث سے غیر مسلموں کو کچھ عطیات دینا ثابت ہے جیسے صفوان ابن امیہ کو کافر ہونے کے زمانہ میں کچھ عطیات دیئے وہ بیت المال کے خمس میں سے دیئے گئے تھے ۔
اس تحقیقی بات سے ثابت ہوا کہ مؤلفۃ القلوب صرف مسلمان تھے غیر مسلم نہیں تھے اور ان میں جو فقراء ہیں ان کا حصہ اب بھی باقی ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے ۔(ماخوذ از معارف القرآن ۴؍۴۰۴)
پانچواں مصرف
’’فی الرقاب‘‘کے لفظ سے ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد وہ غلام ہیں جن کے آقاؤں نے مال کے کسی مقدار معین کے بدلے آزاد کرنے کو کہا ہو جس کو مکاتب بنانا کہتے ہیں ۔ آیت مذکورہ میں رقاب سے مراد یہ ہے کہ اس غلا م کو رقم زکوٰۃ میں سے حصہ دے کراس کی گلو خلاصی میں امداد کی جائے (معارف القرآن بتغیرج۴)
چھٹا مصرف
’’الغارمین‘‘ بتلایا گیا ہے۔غارم کے معنی قرضدار کے ہیں ۔ یہ بھی زکوٰۃ کا مصرف ہے جب کہ اس کے پاس ادائے قرض کے لئے مال نہ ہو اور یہ ہاشمی بھی نہ ہو۔ (شامی)
ساتواں مصرف
’’فی سبیل اﷲ‘‘ ہے ۔ فی سبیل اﷲ سے مراد غازی اور مجاہد ہے جس کے پاس اسلحہ اور جنگ کا ضروری سامان خریدنے کے لئے مال نہ ہو یا وہ شخص جس کے ذمہ حج فرض ہوچکا ہو مگر اس کے پاس اب مال نہ رہا ہو اسی طرح حضرات فقہا نے طالب علموں کو بھی اس میں شامل کیا ہے کہ وہ بھی ایک عبادت کی ادائیگی کے لئے لیتے ہیں ۔فی سبیل اﷲ کی جو تفسیریں مذکور ہیں سب میں فقیر وحاجتمندی کی شرط ملحوظ ہے ۔غنی صاحب نصاب کا اس میں بھی حصہ نہیں بجز اس کے کہ اس کا موجود مال اس ضرورت کو پورا نہ کر سکتا ہو جو جہاد یا حج کے لئے در پیش ہے ۔(معارف القرآن بتغیرج۲)
آٹھواں مصرف