حکومت پاکستان نے ان اراضی پر مالکانہ قبضہ کرنے کے بعد ان کو مسلمانوں پر تقسیم کیا ہے ۔ اس لئے یہ اراضی بیت المال کے ملک میں داخل ہو کر تقسیم کے ذریعہ مسلمانوں کی ابتدائی ملک بن گئیں اس لئے یہ زمینیں عشری ہوں گی ۔ جیسا کہ قسم اول میں گزر چکا ہے ۔ البتہ اگر ان زمینوں میں سے حکومت نے کسی غیر مسلم کو بھی کوئی زمین دی ہو تو اس پر قاعدہ کے مطابق خراج لگایا جائے گا۔
اراضی نہر علاقہ فیصل آباد وسرگودھا
قیام پاکستان سے پہلے
حقیقت ان اراضی کی یہ ہے کہ مدت ہائے دراز سے بے آباد پڑیں تھیں اور کوئی خاص مالک ان کا معلوم نہیں تھا ۔ تھوڑے تھوڑے ٹکڑے بذریعہ آب چاہی یا بارشی کے آباد تھے ان بے آباد زمینوں کو جن کا کوئی مالک معلوم نہ تھا ۔ انگریزی حکومت نے دریائے چناب اور جہلم اور سندھ سے نہریں کھدوا کر مسلمانوں اور غیر مسلموں سے آباد کرایا اور حسب شرائط مجوزہ آباد کرنے والوں کو ان کا مالک قرار دے دیا۔
حکم ان اراضی کا یہ ہے کہ جس زمین کو غیر مسلموں نے آباد کیا تھا وہ بالاتفاق خراجی ہیں جیسا کہ در مختار میں ہے ۔
وموات احیاھا ذمی او رضخ لہ کما مر خراجی
اورشامی میں ہے
لانہ ابتداء وضع علی الکافر وھو الیق بہ،کما مر (شامی ۳؍۳۵۷،۳۵۸)
اور جس زمین کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے اس کے عشری یا خراجی ہونے میں اختلاف ہے ۔ امام ابویوسف رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک ایسی صورت میں چونکہ قرب وجوار کا اعتبار ہوتا ہے اور ان زمینوں کے قرب وجوار کی زمینیں عشری ہیں اس لئے یہ زمینیں عشری ہوں گی اور امام محمد کے نزدیک چونکہ ایسی صورت میں پانی کا اعتبار ہے یعنی اگر پانی عشری سے سیراب ہو تو عشری ہوگی اور اگر پانی خراجی سے سیراب ہو تو خراجی ہوگی اور ان نہروں کا پانی چونکہ خراجی ہے اس لئے یہ زمینیں خراجی ہوں گی ۔تحقیق اور دلیل کی رو سے امام ابویوسف رحمۃ اﷲ علیہ کا مذہب قوی اور راجح ہے اور فقہانے اسی پر فتویٰ دیا ہے ۔
۱)… چنانچہ علامہ شامی نے کہا ہے ،
وحاصلہ انہ سیأتی ان ما احیاہ مسلم یعتبر قربہ عند ابی یوسف وعند محمد یعتبر الماء والمعتمد الاول(شامی ۳؍۳۵۱)
اور در المنتقیٰ میں لکھا ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے اور متن ملتقی میں ابویوسف کے مذہب کو مقدم کر کے راجح قرار دیا ہے ۔ علامہ شامی نے لکھا ہے ،