Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2012

اكستان

26 - 64
تھیں شاید چار سو سال پہلے کا دَور ہے لیکن وہ انگریزی آج پڑھی نہیں جاتی اَور سمجھی نہیں جاتی نہ اُس کا کوئی لفظ ڈکشنری میں ملتا ہے نہ کوئی گرا ئمر کا نحو کا اُصول اُس پر چلتا ہے نہ اُس کے سپیلنگ وہ ہیں جو آج ہوتے ہیں۔ اِس لیے پڑھتے تھے کہ وہ ایک شاعر مانا جاتا ہے یہ اُس کی شاعری ہے یعنی چار سو سال میں سب سے مہذب ماڈرن زبان انگریزی کو آج کوئی سمجھنے والا نہیں ہے۔ وہ شاعراگر آج دوبارہ پیدا ہوجائے اَور اِنگلینڈ میں آئے لندن میں تو اُسے کوئی راستہ بتانے والا نہیں ملے گا۔ اَورایک عرب عالِم نے آج سے پندرہ سال پہلے زمانہ ٔجاہلیت کی شاعری کو جمع کیا ہے اِتنی موٹی کتاب حضور  ۖ کے دادا عبدالمطلب کے دادا عبدمناف بلکہ اُن کے بھی دادا کے زمانہ کی ہے یعنی دو سو چالیس عیسوی آپ کی دُنیا میں تشریف آوری سے ساڑھے تین سو سال پہلے کی اَور اُس کے اِلفاظ ایسے ہیں کہ آپ میں سے جو  عربی کے طالب علم ہیں وہ اُسے سمجھ لیں گے۔ ایک شعر تھا اُس کا   ع
جوزا  ادرک ثریا	ظننت  بآلِ فاطمة 
اَب یہ اِلفاظ تو اُردو میں مستعمل ہیں'' ثریا'' اَور''جوزہ'' ستاروں کے نام ہیں سیاروں کے نام ہیں اَخبارات میں ہر ہفتے شرکیات اَور توہمات چھپتی ہیں کہ آپ کا ہفتہ کیسے گزرے گا اِسی طرح آل  کا لفظ اُردو میں اِستعمال ہوتا ہے اَور فاطمہ کالفظ بھی اُردو میں اِستعمال ہوتا ہے۔آج اگر حضور کے دادا کے دادا بھی دُنیا میں آجائیں تو کسی عرب ملک میں نہیں برطانیہ میں آجائیں ماسکو میں آجائیں واشنگٹن میں آجائیں تو وہ جو زبان بولیں گے وہ آج ہر آدمی سمجھتا ہوگا اُن کو۔ تو زبان بھی محفوظ ہ ہے یہ واحد قرآن کی برکت ہے کہ عربی زبان جو آج سے یعنی قرآن کے نزول سے بھی دو تین سو سال پہلے بولی جاتی تھی وہ زبان آج بولی سمجھی اَور لکھی جارہی ہے۔ 
اِسی طرح پر جو علوم قرآن نے دیے ہیں ایک بہت بڑے محدث اَور فقیہ مالکی مذہب کے گزرے ہیں اَبو بکر نام تھا اُن کا تو اُنہوں نے ایک ہزار سال پہلے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے دُنیا کو تین سو جدید علوم نکال کر دیے ہیں اَور فرمایا کہ یہ سارے علوم شرائع سنت ہیں اَور سنت شرائع قرآن گویاقرآن جو جہت فراہم کرتا تھا کہ سارے علوم جہاں سے پھوٹتے تھے اِ س کی شاخیں دینی اَور دُنیاوی دونوں ،وہ
Flag Counter