(٣) تیسری شرعی خرابی :
بِلا دلیل یہ اِعتقاد قائم کرلینا کہ حضور پُرنور ۖ ہماری محفلِ میلاد میں یقینا تشریف لاتے ہیں اَور پھر اِسی بناء پر کھڑا ہونا۔
حنفی اہلِ سنت والجماعت ہی نہیں بلکہ تمام اہلِ حق لوگوں کا اِس پر اِتفاق ہے کہ کسی قطعی دلیل کے بغیر کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ علامہ سعد الدین تفتا زانی اِرشاد فرماتے ہیں :
وَلَاعِبْرَةَ بِالظَّنِّ فِیْ بَابِ الْاِعْتِقَادَاتِ ۔( شرح عقائد نَسفی )
''اِعتقادات میں ظنی چیزوں کا کوئی اِعتبار نہیں ہے۔'' (یعنی اِعتقادات کے لیے قطعی دَلیل دَرکار ہے)۔
اِس اصول ''اِعتقادات کے لیے دَلیلِ قطعی دَرکار ہے'' کو بریلوی حضرات بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ بریلویوں کے اِمام جناب اَحمد رضا خان صاحب مُلّا علی قاری رحمة اللہ علیہ کی ایک عبارت نقل کرکے لکھتے ہیں :
''اَحادیث ِآحاد دَربارہ اِعتقاد ناقابلِ اعتماد۔'' (فتاویٰ رضویہ جلد دوم ص ٤٥١)
یعنی اَحادیث ِآحاد جن کے روایت کرنے والے دو چار اَفراد ہوں اُن سے عقائد ثابت نہیں ہوتے۔
ایک اَور جگہ لکھتے ہیں :''حدیث ِآحاد اگرچہ تمام شرائط ِصحت کی جامع ہو ظن (گمان) ہی کا فائدہ دیتی ہے اَور معاملہ اِعتقاد میں ظنّیات کا کچھ اِعتبار نہیں۔''(فتاویٰ رضویہ ج دوم ص ٤٥١)
اَحمد رضا خان صاحب کی اِس عبارت کا مطلب واضح ہے کہ جس حدیث کے راوی دو چار اَفراد ہوں اُن سے عقائد ثابت نہیں ہوا کرتے۔ عقائد ثابت کرنے کے لیے قطعی دلائل دَرکار ہوا کرتے ہیں۔ لیکن اِس متفق علیہ اُصول کے باوجود بریلوی حضرات بِلا دَلیل یہ عقیدہ بنائے ہوئے ہیں کہ