Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2012

اكستان

10 - 64
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کسی غیر ضروری کام کو ضروری سمجھنا یا اُس کو اِتنے اِہتمام اَور پابندی کے ساتھ کرنا جس سے دیکھنے والے کو یہ شبہہ گزرے کہ یہ کام ضروری ہے شرعاً منع ہے اَور بقول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایسے شخص پر شیطان کا دَائو چل گیا اَور اُس نے اِس شخص کو گمراہ کر دیا ہے۔
(٢)  دُوسری شرعی خرابی  :
ایک غیر ضروری کام کے لیے لوگوں کو دعوت دینا اَور جمع کرنا۔
فرائض و وَاجبات کے لیے دعوت دینا اَور لوگوں کو بُلانا اَور جمع کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ ضروری اَور فرض ہے لیکن نفلی کاموں کے لیے فرائض و وَاجبات کا سا اِہتمام کرنا شرعاً ناجائز ہے چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نمازِ چاشت کو مسجد میں اِہتمام کے ساتھ اَدا کرنے کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں  :
''جو لوگ اِسے بدعت کہتے ہیں وہ اُن لوگوں کے مجتمع ہونے اَور مسجد میں علی الاعلان پڑھنے کی بناء پر ہے۔ مطلب یہ کہ یہ نماز (چاشت کی نماز) حدِّ ذات میں (یعنی بذاتِ خود) تو مشروع (جائز) ہے لیکن اِس کا ایسا اِجتماع و اِظہار جیسا کہ فرائض میں ہے بدعت ہے اِس لیے کہ نوافل میں سنت (طریقہ) اَور اُس کی فضیلت چھپانے اَور گھر میں پڑھنے میں ہے۔''  ١
 اِسی طرح نفل نماز کو جماعت سے اَدا کرنا گو جائز ہے مگر لوگوں کو بُلا کر اَور اَکٹھا کرکے اِہتمام کے ساتھ نوافل کی جماعت کرنا مکروہ ہے اَور اِتفاقیہ طور پر اگر چار یا پانچ آدمی جمع ہو جائیں تو بھی نفل نماز باجماعت پڑھنا منع ہے کیونکہ اگرچہ یہاں اِہتمام کے ساتھ نفل کی جماعت کے لیے بُلایا نہیں گیا ہے لیکن پھر بھی اِہتمام کی سی شان خود بخود پیدا ہو جاتی ہے اِس لیے چار یا پانچ آدمیوں کا نفل نماز باجماعت پڑھنا منع ہے خواہ بُلا کر اُن کو جمع کیا گیا ہو یا بِلا دعوت خود بخود جمع ہوگئے ہوں۔
   ١   مدارج النبوت اُردو  جلد اَوّل  ص ٦٨٠  مطبوعہ کراچی۔
Flag Counter